تہران : ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ خونی جنگ کے بعد آج تہران میں فضاء سوگوار تھی، جب ان 60 مقتول فوجی کمانڈروں اور ایٹمی سائنس دانوں کی اجتماعی تدفین شروع ہوئی، جو اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہوئے۔ تدفین کا جلوس "انقلاب چوک” سے "آزادی چوک” تک پھیلا رہا، جہاں ہزاروں سوگواروں نے ایرانی پرچموں اور شہداء کی تصاویر تھامے نعرے بلند کیے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق یہ وہ افراد تھے جن میں ایران کی قدس فورس اور ریولوشنری گارڈز کے کلیدی جنرلز محمد باقری، حسین سلامی، اور ایئر اسپیس کمانڈر امیر علی حاجی زادہ بھی شامل تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں چار خواتین اور چار بچے بھی شامل تھے۔
یہ تدفین ایسے وقت ہوئی ہے جب جنگ بندی کو چار دن مکمل ہو چکے ہیں۔ تاہم، خطے میں تناؤ بدستور موجود ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک چونکا دینے والا بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ذلت آمیز موت سے بچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے تھے وہ کہاں چھپے ہیں، لیکن میں نے اسرائیل یا امریکی فوج کو ان پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ٹرمپ کے بیان کو انتہائی توہین آمیز اور ناقابلِ قبول قرار دے کر مذاکرات کے کسی بھی امکان کو رد کر دیا ہے۔
ایرانی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 627 شہری ہلاک ہوئے، جبکہ ایران کے جوابی حملوں سے اسرائیل میں 28 افراد جان سے گئے۔ ایران نے قطر اور اسرائیل میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی کارروائی ایک دفاعی اقدام تھا تاکہ ایران کے مبینہ ایٹمی عزائم کو روکا جا سکے، جسے تہران نے ایک بار پھر مسترد کر دیا ہے۔
دریں اثنا، آیت اللہ خامنہ ای نے قوم سے خطاب میں جنگ بندی کو ایران کی اخلاقی اور اسٹریٹجک فتح قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر امریکا یا اسرائیل نے دوبارہ حملے کی کوشش کی تو "پورا خطہ آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا”۔
یہ تدفین نہ صرف شہداء کو خراجِ عقیدت تھی، بلکہ ایک واضح پیغام بھی کہ ایران جھکے گا نہیں، اور آئندہ جنگ میں پہلے سے زیادہ تیار ہوگا۔