تہران/واشنگٹن ایران اور امریکا کے درمیان زبانی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تہلکہ خیز بیان نے تہران کو ہلا کر رکھ دیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو اسرائیل یا امریکی حملے میں مارے جانے سے بچایا، مگر انہیں شکریہ تک نہیں کہا گیا۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا میں جانتا تھا کہ خامنہ ای کہاں چھپے ہیں، لیکن اسرائیل یا امریکی افواج کو ان پر حملے کی اجازت نہیں دی۔ میں نے اُنہیں ایک بدترین اور ذلت آمیز موت سے بچایا، اور وہ ’شکریہ‘ بھی نہیں بولے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اس بیان کو توہین آمیز اور ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ واقعی کوئی معاہدہ چاہتے ہیں تو انہیں ایران کے سپریم لیڈر کے بارے میں زبان کو لگام دینی ہوگی۔
عباس عراقچی نے ایرانی عوام کے جذبات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عظیم ایرانی قوم دھمکیوں اور تضحیک کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔
اس ساری صورتحال کے دوران امریکا کی جانب سے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملوں کی مؤثریت پر عالمی برادری میں سوالات اٹھ رہے ہیں، جب کہ ایران نے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی امریکی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔