اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینٹ نے موجودہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو اقتدار سے الگ ہونے کا مشورہ دے کر اسرائیلی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے حالیہ گفتگو میں واضح طور پر کہا ہے کہ نیتن یاہو کا اقتدار میں طویل قیام اب اسرائیلی جمہوریت کے لیے نقصان دہ بنتا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو دہائیوں تک ملک پر حکومت کرنے والے نیتن یاہو اب سیاسی نظام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور معاشرتی تقسیم میں ان کا کردار نمایاں ہے۔
نفتالی بینٹ، جن کا تعلق دائیں بازو کی سیاست سے ہے، ایک وقت میں نیتن یاہو کے شدید سیاسی مخالفین کے ساتھ اتحاد قائم کرکے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔
سن 2021 میں انہوں نے ایک غیر معمولی سیاسی اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے نیتن یاہو کو اقتدار سے باہر کیا، تاہم ان کی حکومت بمشکل ایک سال قائم رہ سکی۔ اس کے بعد جب انتخابات ہوئے تو نیتن یاہو ایک بار پھر کامیاب ہو کر وزیر اعظم بن گئے۔
بینٹ نے بعد ازاں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی، لیکن اب اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ وہ ایک بار پھر سیاسی میدان میں واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔
بینٹ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی قوم اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے جہاں قیادت کی صلاحیت، فیصلہ سازی اور قومی اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔
انہوں نے نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ قوم کو درپیش بڑے فیصلے کرنے سے گریزاں ہیں، اور یہ روش ریاست کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل ایک نئے دور میں داخل ہو، جہاں ایک جامع اور مؤثر قیادت باقی یرغمالیوں کی رہائی جیسے اہم مسائل کو فوری طور پر حل کر سکے۔
انہوں نے ایران پر کیے گئے اسرائیلی حملے کو درست اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ناگزیر فیصلہ تھا، اور اس وقت کے حالات کے تناظر میں یہ کاروائی ضروری تھی۔
ان کے مطابق اسرائیلی دفاعی افواج نے خاص طور پر غزہ میں قابلِ تعریف کردار ادا کیا، تاہم ان کے نزدیک اصل بحران سیاسی قیادت کی سطح پر ہے، جہاں فیصلہ سازی کا فقدان موجود ہے۔
نفتالی بینٹ سے جب اس بات کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آیا وہ آئندہ حکومت بنانے کے لیے عملی میدان میں دوبارہ قدم رکھیں گے یا نہیں، تو انہوں نے کوئی واضح جواب دینے سے گریز کیا۔
انہوں نے کہا کہ حماس جیسے خطرناک عناصر سے مکمل نجات حاصل کرنا اگلی قیادت کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ ان کے مطابق موجودہ حکومت کو فوری طور پر وہ اقدامات کرنے چاہییں جو قوم کو متحد کریں اور باقی مغوی شہریوں کو بحفاظت رہا کروانے کے لیے کارگر ثابت ہوں۔
سیاسی حلقوں میں ان کے انٹرویو کو اس بات کا عندیہ بھی قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ ایک نئی سیاسی مہم کی تیاری میں مصروف ہیں۔ عوامی رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے اشارہ ملتا ہے کہ بینٹ کو ممکنہ طور پر اتنی عوامی حمایت حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ نیتن یاہو کو اقتدار سے محروم کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں۔
اگرچہ 2026 سے قبل نئے انتخابات کی کوئی باضابطہ توقع نہیں کی جا رہی، مگر اسرائیل کی ماضی کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں قبل از وقت انتخابات ایک معمول کی بات ہیں۔
بینٹ کے ان بیانات کو اسرائیلی سیاسی منظرنامے میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے، خاص طور پر اس وقت جب ملک شدید سیاسی، عسکری اور سماجی بحرانوں سے نبرد آزما ہے۔