ایران کے دارالحکومت تہران کی بدنامِ زمانہ ایون جیل پر اسرائیل کے فضائی حملے نے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی ایک نئی خطرناک سطح کو چھو لیا ہے۔ ایرانی عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیر نے اتوار کے روز میڈیا کو بتایا کہ 23 جون کو ہونے والے اس ہولناک حملے میں 71 افراد شہید ہو گئے، جن میں انتظامی عملہ، فوجی جوان، قیدی، زیرِ حراست افراد سے ملاقات کے لیے آنے والے اہل خانہ اور جیل کے اطراف کے رہائشی شامل ہیں۔
یہ حملہ نہ صرف ایک انسانی سانحہ ہے بلکہ ایک واضح پیغام بھی کہ اسرائیل اب صرف ایران کے فوجی اور جوہری مراکز کو ہی نشانہ نہیں بنا رہا بلکہ اس کے ریاستی نظام کی علامتوں کو بھی تباہ کرنے کے درپے ہے۔ ایون جیل، جہاں ایران کے متعدد سیاسی قیدی اور غیر ملکی شہری، بشمول دو فرانسیسی باشندے سیسیل کوہلر اور جیکس پیرس قید ہیں، طویل عرصے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔
عدلیہ کے مطابق، حملے میں جیل کی انتظامی عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور زندہ بچ جانے والے قیدیوں کو تہران کے دیگر جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ حملے کے بعد ایران میں سوگ کی فضا قائم ہے اور ملک بھر میں سلامتی کے سخت انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ ادھر فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نول باروٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ "ایکس” پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایون جیل پر حملہ ناقابلِ قبول ہے، اس سے ہمارے شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایران اور اسرائیل کے مابین فضائی جھڑپوں اور سائبر حملوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ یہ کارروائی خطے میں ایک ممکنہ بڑی جنگ کے خدشات کو جنم دے سکتی ہے، خاص طور پر جب ہدف ایران کا عدالتی نظام اور انسانی حقوق کے مرکز تصور کیے جانے والے مقامات بننے لگیں۔