تل ابیب کی جانب سے حماس کی شرائط کو مسلسل رد کیے جانے کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر تناؤ کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے آسٹریا کے وزیر خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں واضح دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ نہ ہوا تو اسرائیل بھرپور طاقت کا استعمال کرے گا۔
ساعر نے اعلان کیا کہ جب تک حماس غزہ پر کنٹرول رکھے گی، کوئی معاہدہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ اسرائیل نے وِٹکوف منصوبے کی حمایت کی ہے، جس کا مقصد انسانی صورتحال میں بہتری لانا ہے، تاہم حماس نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
اس دوران، حماس کے اعلیٰ رہنماؤں نے قطر اور مصر کے ساتھ ثالثی رابطوں میں تیزی کی تصدیق کی ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ ایک جامع اور پائیدار معاہدہ چاہتی ہے جس میں جنگ کا مستقل خاتمہ، اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلا، امداد کی فراہمی اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہو۔ حماس کے مطابق، اسرائیل مسلسل مذاکراتی عمل کو تعطل کا شکار بنا رہا ہے۔
دوسری جانب، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے حوالے سے مداخلت کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ حماس کے ساتھ معاہدہ کیا جائے اور یرغمالیوں کو فوری رہا کرایا جائے۔ ٹروتھ سوشل پر جاری بیان میں ٹرمپ نے کہا، ’’معاہدہ کرو اور اسیروں کو واپس لاؤ۔‘‘
اسی دوران غزہ میں انسانی بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ وزارت صحت غزہ کے مطابق، جاری جنگ میں اب تک 56,500 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
اسرائیلی فوج ایک نئے اور غیر معمولی زمینی آپریشن کی تیاری کر رہی ہے، جو کسی بھی لمحے شروع ہو سکتا ہے۔ خطے میں کشیدگی انتہا کو چھو رہی ہے، اور اگر سفارتی کوششیں ناکام رہیں تو مشرق وسطیٰ ایک اور ہولناک مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے۔