غزہ کی وزارتِ داخلہ نے ایک غیرمعمولی اقدام اٹھاتے ہوئے مسلح بدوی قبیلے کے بااثر سربراہ یاسر ابو شباب کو ’فلسطینیوں سے غداری‘ کے الزام میں ہتھیار ڈالنے اور انقلابی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ وزارت کے مطابق ابو شباب کو 10 دن کی مہلت دی گئی ہے تاکہ وہ خود کو قانون کے حوالے کر دے، بصورت دیگر سیکیورٹی فورسز کارروائی کے لیے تیار ہیں۔
یاسر ابو شباب پر الزام ہے کہ وہ نہ صرف حماس کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے بلکہ اس نے غزہ میں حکومت کے کنٹرول کو کمزور کرنے کی منظم کوششیں کیں۔ انقلابی عدالت کے فیصلے کے بعد، حماس کے سیکیورٹی اداروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ابو شباب کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کریں تاکہ اسے گرفتار کر کے قانونی کارروائی شروع کی جا سکے۔ موجودہ اطلاعات کے مطابق، ابو شباب رفح کے علاقے میں موجود ہے، تاہم اب تک اس کی جانب سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔
حماس کی وزارتِ داخلہ نے اس پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے قافلوں کو اسرائیلی افواج کی مدد سے لوٹتا رہا ہے، اور فلسطینی عوام کے مفادات کے خلاف سرگرمیوں میں براہ راست ملوث رہا ہے۔ اس دعوے کے برعکس، ابو شباب کے گروپ نے عالمی خبررساں ایجنسی ’روئٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے اپنا مؤقف پیش کیا کہ وہ ایک عوامی گروہ ہے جو امدادی قافلوں کی حفاظت کے لیے کام کرتا ہے تاکہ یہ امداد حقیقی مستحقین تک پہنچ سکے۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازع صرف انسانی امداد یا داخلی سیاسی اختلاف تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے بہت پیچیدہ جغرافیائی اور سیاسی عوامل کارفرما ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے پہلے ہی یہ اشارہ دیا جا چکا ہے کہ وہ بعض غزہ کے غیر سرکاری گروپوں سے رابطے میں ہے جو حماس کے خلاف سرگرم ہیں، اگرچہ اسرائیلی حکام نے کبھی ان گروپوں کا نام ظاہر نہیں کیا۔
یہ کشیدگی غزہ میں پہلے سے جاری انسانی بحران کو مزید پیچیدہ کر سکتی ہے، جہاں مختلف گروہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے عوامی اعتماد، سلامتی اور سیاسی استحکام کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ نہ صرف غزہ بلکہ پورے خطے کے لیے ایک اہم سیاسی موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔