یروشلم / غزہ:اسرائیلی میڈیا کی ایک ہولناک رپورٹ نے اسرائیلی فوج کی جنگی حکمتِ عملی کا وہ پہلو بے نقاب کر دیا ہے، جس کے مطابق ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران مشن سے واپس آنے والے پائلٹوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ اپنا بچا ہوا گولہ بارود غزہ کی پٹی پر برسا دیں۔
اسرائیلی اخبار "معاریف” کی رپورٹ کے مطابق، یہ عمل ابتدائی طور پر رضاکارانہ اقدام کے طور پر شروع ہوا، مگر جلد ہی باضابطہ پالیسی کی شکل اختیار کر گیا اور یوں محصور غزہ، ایران کے خلاف جاری جنگ کا ’ثانوی محاذ‘ بن گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ تومر بار نے اسکواڈرنز کو براہِ راست ہدایت دی کہ لینڈنگ سے قبل زمینی یونٹوں سے ہم آہنگی کی جائے، اور واپسی پر غزہ میں اہداف کو نشانہ بنایا جائے۔ یوں، روزانہ درجنوں جنگی طیارے اپنے فضاء سے زمین پر مار کرنے والے بم جو دراصل ایران کے لیے مخصوص تھے غزہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں پر گراتے رہے۔
اس وسائل کی بچت کے نام پر اختیار کی گئی حکمت عملی نے غزہ کے شہریوں کے لیے روز مرہ بمباری کو معمول بنا دیا، حالانکہ ان کا جنگ سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ اسرائیلی افسران نے اس عمل کو طاقت میں دوگنا اضافہ قرار دیا کیونکہ بغیر کسی اضافی آپریشنل لاگت کے، تباہی کی شدت بڑھا دی گئی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پائلٹ فضائی دفاعی مشن مکمل کر کے کنٹرول روم سے رابطہ کرتے اور پیش کش کرتے کہ واپسی پر غزہ پر اپنا بچا ہوا بارود گرا دیں، جسے فوراً قبول کیا گیا اور جلد ہی یہ عمل اتنا عام ہو گیا کہ اسکواڈرنز کو روزانہ ہدایت دی جانے لگی۔
دوسری جانب، اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی زمینی کارروائیاں مزید تیز کر رہی ہے، جن کا مقصد بیت حانون اور غزہ شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا اور حماس کے آخری دو بریگیڈز کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق، یہ شدید عسکری دباؤ، جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے قبل ایک منصوبہ بند دباؤ ہے۔
اگرچہ بظاہر یہ فضائی پالیسی کفایت شعاری کے نام پر اپنائی گئی، لیکن حقیقت میں اس نے غزہ کو ایک ایسے عذاب میں دھکیل دیا جس کا جواز نہ عالمی قانون دیتا ہے نہ انسانی ضمیر