بحیرہ احمر میں ایک بار پھر خاموشی ٹوٹ گئی، جب یمن کے حوثی باغیوں نے لائبیریا کے پرچم بردار اور یونان کے زیرِ انتظام مال بردار جہاز ‘ایٹرنٹی سی’ کو سمندری ڈرونز اور راکٹوں سے نشانہ بنایا۔ واقعے میں 4 عملے کے ارکان جاں بحق ہو گئے، جب کہ جہاز کے دیگر 18 ارکان، جن میں 21 فلپائنی اور ایک روسی شامل تھے، شدید خطرے میں پھنس گئے۔
یہ حملہ جون 2024 کے بعد پہلا مہلک حملہ ہے جس میں انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ حوثیوں نے تاحال اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، مگر اس واقعے سے چند گھنٹے قبل ’میجک سیز‘ نامی جہاز پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کے ڈوبنے کی ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی۔
حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں کا مقصد فلسطینیوں سے یکجہتی ہے، اور وہ صرف ایسے جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں جو اسرائیل سے منسلک سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ ان حملوں سے عالمی تجارت اور بحری سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن (IMO) کے سربراہ آرسینیو ڈومنگیز نے ان واقعات کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے، جبکہ امریکی محکمہ خارجہ نے اسے "بلا اشتعال دہشت گردی” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بحری آزادی کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات جاری رہیں گے۔
یونانی حکومت نے سعودی عرب سے سفارتی بات چیت کا آغاز کر دیا ہے تاکہ خطے کے اہم کردار کی مدد سے نہ صرف متاثرہ جہازوں بلکہ دیگر ممکنہ خطرات سے بھی بچاؤ ممکن بنایا جا سکے۔ دریں اثنا، فلپائنی حکومت نے اپنے شہریوں کو بحیرہ احمر جیسے خطرناک علاقوں سے گریز کی ہدایت کی ہے۔
واضح رہے کہ 2023 سے حوثی باغیوں نے درجنوں تجارتی جہازوں کو میزائل اور ڈرونز سے نشانہ بنایا ہے۔ اگرچہ مئی میں امریکا اور حوثیوں کے درمیان ایک نازک جنگ بندی ہوئی تھی، تاہم یہ تازہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ غزہ جنگ کے جاری رہنے تک یہ خطرہ بھی برقرار رہے گا۔
اسرائیل کی جانب سے بھی پیر کو یمن کی تین بندرگاہوں اور ایک بجلی گھر پر فضائی حملے کیے گئے، جس سے علاقائی کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ عالمی عدالت انصاف اور عالمی فوجداری عدالت میں اسرائیل پر نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات زیرِ غور ہیں، جنہیں اسرائیل مسترد کرتا ہے۔