شمالی غزہ میں حماس کے تازہ حملے نے اسرائیلی صفوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ حملے میں پانچ صہیونی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کی داخلی سیاست میں ایک نیا اشتعال دیکھنے میں آیا، جب وزیر قومی سلامتی اتمار بن گویر نے دوحہ میں جاری مذاکرات کو "سپاہیوں کے خون سے غداری” قرار دیتے ہوئے وفد کو فوری طور پر واپس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔
بن گویر نے اپنے ٹیلیگرام پیغام میں کہا، "ایسے لوگوں سے بات کیوں کی جائے جو ہمارے فوجیوں کو قتل کرتے ہیں؟ ان پر رحم کرنے کے بجائے انہیں بھوکا مار دینا چاہیے اور مکمل طور پر کچل دینا چاہیے، ان کے الفاظ صرف اشتعال انگیز نہیں بلکہ اسرائیلی پالیسی کے ممکنہ سخت ترین رُخ کا اظہار بھی ہیں۔
وزیر نے غزہ کا مکمل محاصرہ، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور اسرائیلی آبادکاری کو کامیابی کی اصل کنجی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ہزاروں دہشت گردوں کی رہائی اور غزہ سے فوج کے انخلا کا کوئی معاہدہ ہماری قربانیوں کی توہین ہے
دوسری جانب دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے جاری بالواسطہ مذاکرات تیسرے روز بھی کسی واضح نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔ ایک فلسطینی ذرائع نے بتایا، "تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، بات چیت جاری ہے، لیکن انخلا اور انسانی امداد کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں ہو رہا۔”
یہ مذاکرات اس وقت ہو رہے ہیں جب 21 ماہ سے جاری خونی تنازع نے خطے کو انسانی بحران کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ مگر بن گویر جیسے انتہا پسند رہنماؤں کے بیانات نہ صرف جنگ بندی کی کوششوں پر پانی پھیر سکتے ہیں بلکہ اسرائیل کے اندر بھی سیاسی تقسیم اور پالیسی انتشار کو آشکار کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہوتا جا رہا ہے مذاکرات یا مکمل عسکری جارحیت؟ جبکہ فلسطینی عوام ہر لمحہ محاصرے، بمباری اور بے دخلی کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔