غزہ/تل ابیب/رام اللہ:جنوبی غزہ کے حساس ترین علاقے رفح میں سرگرم ایک متنازع مسلح گروہ کے سربراہ یاسر ابو شباب نے حماس کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے اور فلسطینی اتھارٹی سے تعلقات کا انکشاف کر کے خطے میں نئی سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ روز تک وہ اسرائیلی فوج سے رابطے اور تعاون کا اعتراف کر چکے تھے، مگر اب ان کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف فلسطینی اتھارٹی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ابو شباب کا گروہ، جسے وہ عوامی فورسز کا نام دیتا ہے، رفح کے اس علاقے میں سرگرم ہے جو مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں ہے۔ انہوں نے پیر کے روز اسرائیلی اخبار "یدیعوت احرونوت” کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ ہم نے ابتدا سے فلسطینی اتھارٹی سے رابطہ رکھا، اور صدر محمود عباس کے مشیر محمود الہباش نے ہماری حمایت کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ انسداد دہشت گردی فورس کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کا مقصد غزہ میں حماس کا مکمل خاتمہ ہے، چاہے جنگ بندی ہو یا نہ ہو۔ ابو شباب نے کہا کہ میں حماس کے آخری فرد تک جنگ جاری رکھوں گا۔
یہ دعوے ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب صرف ایک دن پہلے، اسرائیلی نشریاتی ادارے "کان” کو دیے گئے انٹرویو میں ابو شباب نے واضح کیا تھا کہ ان کی تنظیم کو لاجسٹک اور مالی مدد حاصل ہے اور بعض سرگرمیوں کی اطلاع اسرائیلی فوج کو فراہم کی جاتی ہے۔
ہم کسی کا نام نہیں لیتے، لیکن جب مقصد تعاون ہو تو ہم رابطہ کرتے ہیں۔ عسکری کارروائیاں ہم خود کرتے ہیں
رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی حکومت نے ابو شباب کے گروہ کو اسلحہ، بشمول کلاشنکوف رائفلیں فراہم کیں، اور یہ اقدام اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سفارش پر کیا گیا، تاہم کابینہ کو اس سے لاعلم رکھا گیا۔
حماس اور اس کے اتحادی گروہوں نے ابو شباب کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ "دشمن سے روابط، بغاوت، اور مسلح گروہ بنانے” جیسے سنگین الزامات پر خود کو عدالت کے حوالے کریں۔ اسے 2 جون سے 10 دن کی مہلت دی گئی ہے، بصورت دیگر حماس اسے غدار اور دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر کارروائی کرے گی۔
ابو شباب نے حماس کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہاوہ مجھے کبھی داعش کا رکن، کبھی چور، کبھی غدار کہتے ہیں تاکہ عوام کو مجھ سے دور کر سکیں، مگر یہ ناکام رہے
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، ابو شباب ماڈل کو اسرائیل مستقبل میں وسطی اور شمالی غزہ میں بھی دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ حماس کی جڑیں کمزور کی جائیں اور داخلی تقسیم کو ہوا دی جائے۔ یہ حکمت عملی خطے میں کشیدگی اور اندرونی خلفشار کو مزید گہرا کر سکتی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، ابو شباب کا ابھار نہ صرف غزہ میں ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے، بلکہ فلسطینی اتھارٹی کی پوزیشن کو بھی مشتبہ بنا رہا ہے، جو بظاہر اسرائیل اور حماس کے درمیان بیلنس قائم رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔