غزہ کی پٹی میں کئی ماہ سے جاری تباہ کن جنگ کے دوران ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے قطر اور امریکہ کی ثالثی میں جاری سفارتی کوششوں کے تحت 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ یہ اعلان بدھ کے روز اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ کے مختلف علاقوں میں کم از کم 74 فلسطینی شہید ہو گئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم نے حالیہ جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کر لیا ہے اور وہ اپنے عوام کو تحفظ دینے، امداد کی آزادانہ فراہمی ممکن بنانے اور اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ یقینی بنانے کے لیے ضروری لچک دکھا رہی ہے۔
تاہم حماس کے ترجمان طاہر النوعنو نے واضح کیا کہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات شدید رکاوٹوں کا شکار ہیں، جن کی بنیادی وجہ اسرائیل کا سخت گیر رویہ ہے۔ مذاکرات میں سب سے زیادہ اختلاف انسانی بنیادوں پر امداد کی فوری اور بلا رکاوٹ فراہمی، اسرائیلی افواج کی مکمل اور واضح واپسی، اور ایک مستقل جنگ بندی کی مضبوط ضمانتوں پر ہے۔ حماس نے زور دیا کہ ابتدائی مرحلے میں اسرائیلی فوج کی انخلاء کا تعین اس انداز سے کیا جائے کہ فلسطینی شہریوں کی روزمرہ زندگی متاثر نہ ہو اور دوسرے مرحلے کے مذاکرات کے لیے اعتماد کی فضا قائم کی جا سکے۔
دوسری جانب واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو اسی ہفتے دو بار اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کر چکے ہیں، ٹرمپ نے کہا کہ ہم جنگ بندی کے امکانات کو بہتر دیکھ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ رواں ہفتے یا اگلے ہفتے کوئی پیش رفت ہو، مگر غزہ جیسے مسائل میں کچھ بھی یقینی نہیں ہوتا۔ان کا یہ بیان اگرچہ پر امید ہے، تاہم اس میں واضح احتیاط کا پہلو بھی شامل ہے، جو بتاتا ہے کہ سفارتی عمل میں غیر یقینی صورتحال بدستور قائم ہے۔
مبصرین کے مطابق موجودہ لمحہ ایک نازک موڑ ہے،ایک طرف فلسطینی عوام انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، تو دوسری طرف عالمی طاقتیں جنگ بندی کو ممکن بنانے کے لیے پس پردہ مصروفِ عمل ہیں۔ اگر اسرائیل اور حماس میں کوئی بامعنی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ نہ صرف ہزاروں جانیں بچا سکتا ہے بلکہ خطے میں قیام امن کے لیے ایک نئی بنیاد بھی فراہم کر سکتا ہے۔