لبنان کے صدر جوزف عون نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے امکان کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ لبنان کی موجودہ خارجہ پالیسی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جمعہ کے روز اپنے ایک اہم بیان میں، صدر عون نے اسرائیل کے وزیر خارجہ جدعون ساعر کے اُس بیان پر ردعمل دیا، جس میں ساعر نے لبنان اور شام کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی نارملائزیشن کے لیے اپنی دلچسپی ظاہر کی تھی۔
صدر عون کا کہنا تھا کہ لبنان کا موقف واضح ہے، اور اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کا قیام ممکن نہیں جب تک اسرائیل لبنان کے جنوبی علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لبنان اپنی علاقائی سالمیت کی حفاظت کے لیے کسی بھی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اور ان کی حکومت اسرائیل کے ساتھ امن کے قیام کی کسی بھی تجویز کو یکسر مسترد کرتی ہے۔
لبنان کے جنوبی علاقے ابھی تک اسرائیل کے قبضے میں ہیں، اور اسرائیلی فوج نے ان علاقوں کو خالی کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یہ علاقے نہ صرف لبنان کی قومی خودمختاری کے لیے ایک سنگین چیلنج ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی ایک بڑی وجہ بھی ہیں۔ صدر عون نے اس بات کو اجاگر کیا کہ جب تک اسرائیل اپنے قبضے کو ختم نہیں کرتا، لبنان کے لیے اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلقات قائم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ جدعون ساعر نے حال ہی میں ایک بیان میں لبنان اور شام کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل دونوں ممالک کے ساتھ ایک جدید اور پرامن تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہے، اور اس مقصد کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، صدر عون نے اس بیان کا سختی سے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ لبنان کی خارجہ پالیسی میں اس نوعیت کا کوئی خیال شامل نہیں ہے اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات کا سوال ہے۔
صدر جوزف عون نے اس بات پر زور دیا کہ لبنان اپنے قومی مفادات اور آزادی کی کسی قیمت پر کمزوری نہیں دکھائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لبنان کی حکومت اپنے علاقے کی آزادی کو فروغ دینے اور اس کی سرحدوں کی مکمل حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائے گی۔ لبنان کے صدر کا یہ موقف نہ صرف داخلی طور پر عوامی حمایت کا حامل ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی لبنان کی سالمیت اور خودمختاری کے تحفظ کے پیغام کے طور پر اہمیت رکھتا ہے
لبنان اور اسرائیل کے تعلقات تاریخ کی سب سے پیچیدہ اور کشیدہ تاریخوں میں شامل ہیں۔ 2006 میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان 33 روزہ جنگ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا تھا، اور اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان نہ تو کسی قسم کی امن بات چیت ہوئی ہے اور نہ ہی دونوں کے درمیان کسی رسمی تعلقات کا آغاز ہو سکا ہے۔ اسرائیل کا لبنان کے جنوبی حصوں پر قبضہ اور لبنانی سرحدوں کی حفاظت کے مسائل ہمیشہ سے ایک بڑی رکاوٹ رہی ہیں، اور صدر عون کا یہ تازہ ترین بیان ان رکاوٹوں کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
لبنان کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے خلاف موقف نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اہمیت رکھتا ہے۔ لبنان کی سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے یہ فیصلہ ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے لبنان کے عوام کے حقوق کی مکمل حفاظت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ عالمی سطح پر بھی لبنان کے اس موقف کو ایک مضبوط پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے کسی بھی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔
لبنان کی خارجہ پالیسی میں اس موقف کی استقامت یہ ظاہر کرتی ہے کہ لبنان کسی بھی قسم کے بیرونی دباؤ کے باوجود اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ صدر عون کا یہ بیان لبنان کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کرتا ہے، جس میں واضح طور پر یہ پیغام دیا گیا کہ لبنان اپنے حقوق کے لیے کسی بھی سطح پر لڑنے کے لیے تیار ہے۔