اردن کے دارالحکومت عمان میں فلسطینی صدر محمود عباس کی رہائش گاہ پر ایک نہایت اہم ملاقات ہوئی جس میں سابق برطانوی وزیرِاعظم اور بین الاقوامی سفارتی حلقوں میں سرگرم شخصیت ٹونی بلیئر شریک تھے۔ اس ملاقات میں فلسطینی قیادت کی جانب سے جنگ زدہ غزہ کی صورتحال پر گہری تشویش اور مستقبل کے سیاسی حل پر واضح مؤقف اختیار کیا گیا۔
صدر محمود عباس نے اس ملاقات کے دوران بات چیت کو بہت دوٹوک اور حقیقت پسندانہ انداز میں آگے بڑھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ بحران کا حل کسی یک طرفہ یا عارضی قدم میں نہیں بلکہ جامع جنگ بندی، تمام یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی اور بلا تعطل انسانی امداد کی فراہمی جیسے بنیادی اقدامات سے مشروط ہے۔ ان کے بقول یہ تمام عوامل نہ صرف انسانی ہمدردی کا تقاضا ہیں بلکہ امن کے قیام کے لیے ناگزیر بنیادیں بھی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر خطے میں واقعی دیرپا امن درکار ہے تو اسرائیل کو غزہ سے مکمل انخلا کرنا ہو گا، تاکہ فلسطینی ریاست بین الاقوامی اور عرب دنیا کی حمایت سے غزہ میں اپنی تمام انتظامی اور حکومتی ذمہ داریاں سنبھال سکے۔ ان کے مطابق یہی وہ واحد راستہ ہے جو خطے میں پائیدار امن اور سیاسی استحکام کی ضمانت دے سکتا ہے۔
صدر عباس نے یہ بھی واضح کیا کہ جنگ کے اختتام کے بعد حماس کی غزہ پر حکمرانی کا باب بند ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کو چاہیے کہ وہ اپنی عسکری طاقت کو فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرے اور سیاسی عمل میں شمولیت اختیار کرے۔ لیکن یہ شمولیت تنظیم آزادی فلسطین (PLO) کے واضح سیاسی اصولوں، بین الاقوامی قانون، متحدہ نظام حکومت، ایک قانون، اور صرف ریاستی سطح پر تسلیم شدہ اسلحے کی پالیسی کے تحت ہونی چاہیے۔
محمود عباس نے اپنی گفتگو میں اُن عوامل کی بھی نشاندہی کی جو امن عمل کو متاثر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے یہودی بستیوں کی مسلسل توسیع، زمینوں کے الحاق کی کوششیں، اور مسجد اقصیٰ سمیت دیگر مقدس مقامات پر حملے اور بے حرمتی ناقابل قبول ہیں اور ان اقدامات کو فی الفور بند کیا جانا چاہیے۔
اس موقع پر صدر نے زور دیا کہ امن کے قیام کے لیے بین الاقوامی برادری کو سنجیدگی سے دو ریاستی حل پر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، عرب امن منصوبہ اور نیویارک میں ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس جیسے اقدامات کو بنیاد بناتے ہوئے، ایک ایسا سیاسی عمل شروع کیا جائے جس کے ذریعے فلسطین اور اسرائیل دونوں کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور خطے میں دیرپا امن ممکن بنایا جا سکے۔
یہ ملاقات نہ صرف سفارتی لحاظ سے اہم تھی بلکہ دونوں رہنماؤں کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا کہ جنگ بندی، سلامتی، اور خطے میں پائیدار استحکام کے لیے عالمی اور علاقائی فریقین سے مشاورت اور روابط کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ دونوں نے تسلیم کیا کہ اس نازک وقت میں سفارتی کوششیں رکنے نہیں چاہئیں بلکہ انھیں مزید مؤثر بنایا جائے۔