ایران کی قومی سلامتی کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین محمود نبویان نے تہلکہ خیز انکشاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے معائنہ کاروں کے جوتوں سے جاسوسی چپس برآمد ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب یہ معائنہ کار ایرانی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے آئے تھے۔
فارس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے نبویان نے عالمی ایجنسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آئی اے ای اے کو ہماری حساس تنصیبات کا پتہ کیسے چلتا ہے؟ کیا یہ معلومات امریکی سیٹلائٹس سے لی جاتی ہیں یا اسرائیل کے ذریعے؟”
نبویان نے مزید الزام عائد کیا کہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے ایران کی جوہری رپورٹس اسرائیل کو فراہم کیں، اور یہ مؤقف محض الزام نہیں بلکہ دستاویزی ثبوتوں پر مبنی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ایران کی وزارت انٹیلی جنس نے اسرائیل سے حاصل کردہ دس ملین خفیہ دستاویزات کا تجزیہ کیا ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ گروسی کی قیادت میں ایجنسی کی رپورٹس لیک ہو رہی تھیں۔
ایرانی نائب چیئرمین نے کہا کہ ایران جب بھی آئی اے ای اے کو خفیہ رپورٹس دیتا، تو ان پر باقاعدہ بحث سے پہلے ہی ان کی تفصیلات امریکی اور اسرائیلی میڈیا میں شائع ہو جاتی تھیں، حالانکہ ان معلومات کی اشاعت عالمی ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اسرائیل، جو خود جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے (NPT) کا رکن ہی نہیں، اسے کس اختیار کے تحت ایرانی معلومات فراہم کی جا رہی ہیں؟
اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کا پس منظر اُس قانون سے جڑا ہے جس پر حال ہی میں ایرانی صدر مسعود بزشکیان نے دستخط کیے، جس کے تحت ایران نے بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ باضابطہ تعاون معطل کر دیا۔
اس اقدام سے ایک روز قبل آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے ایران پر عدم تعاون کا الزام لگایا تھا، جس کے فوراً بعد اسرائیل نے ایران پر فضائی حملے شروع کر دیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان 12 روزہ جنگ چھڑ گئی۔
ایران اور اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نہ صرف خطے میں استحکام کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر جوہری نگرانی کے نظام پر بھی سنگین سوالات اٹھا رہی ہے۔