ایران کے ایک سابق رکن پارلیمان کی جانب سے فرانسیسی خاتون صحافی کھیترین پیریز شکدم پر ایران کے 120 سینیئر حکومتی عہدیداروں سے ناجائز تعلقات قائم کرنے اور اہم قومی راز چرانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
ان الزامات کے بعد ایرانی حکومت کی جانب سے سابق پارلیمنٹ رکن مصطفی کاواکبیان کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر کاواکبیان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔
یہ دعوے کاواکبیان نے ایک ٹی وی پروگرام میں کیے جہاں انہوں نے کیتھرین پیریز شکدم کے بارے میں بتایا کہ وہ ایرانی حکام تک رسائی رکھتی تھیں اور ان سے رابطے میں تھیں۔ پراسیکیوٹر آفس کا کہنا ہے کہ ان دعوؤں کی کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں اور یہ عوامی رائے کو منتشر کرنے کی کوشش ہے۔مصطفی کاواکبیان کو شواہد پیش کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا مگر وہ کوئی ثبوت نہیں دے سکے۔
سیاسی تجزیہ، صحافی اور لکھاری کیتھرین پیریز شکدم فرانس میں ایک سیکولر یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کے دادا نازی دور میں مزاحمت کار تھے۔ انہوں نے لندن یونیورسٹی سے نفسیات میں بیچلر اور فنانس و کمیونیکیشنز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
کیتھرین نے کہا کہ ان کا مسلم روپ صرف ایران میں داخلے کے لیے تھا اور اب وہ مسلمان نہیں رہیں،تعلیم کے دوران انہوں نے یمن کے ایک مسلمان سے شادی کی اور مسلمان ہوگئیں۔ انہوں نے اس موضوع پر متعدد کتابیں اور مضامین لکھیں۔ 2014 میں طلاق کے بعد وہ خود کو دوبارہ سے یہودی اور صہیونی قرار دیتی ہیں۔
کیتھرین نے 2017 میں ایران کا دورہ کیا اور سابق صدر ابراہیم رئیسی کا بھی انٹرویو کیا۔ اس کے بعد ایرانی میڈیا مثلاً مشرق نیوز، تسنیم نیوز، اور حتیٰ کہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ پر ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔
تاہم نومبر 2021 میں انہوں نے دی ٹائمز آف اسرائیل میں ایک بلاگ پوسٹ میں کہا کہ ان کا مسلم روپ صرف ایران میں داخلے کے لیے تھا اور اب وہ مسلمان نہیں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی حکام ان کی فرنچ شہریت اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے ان پر اعتماد کرتے تھے۔
ایک سال بعد سابق صدرمحمود احمدی نژاد کے حمایتی ٹیلیگرام چینل نے بھی اس واقعے کو موضوع بنایا اور دعویٰ کیا کہ ایران کی حکومت میں اسرائیلی جاسوس سرگرم ہیں۔ ایران کے اعلیٰ سطح پر اسرائیلی جاسوسی کا شبہ سامنے آنے کے بعد ایرانی حکومت اور سخت گیر حلقوں میں سخت ہنگامہ مچا اور ایران کی میڈیا ایجنسیوں نے ان کے تمام مضامین اپنی ویب سائٹس سے ہٹا دیے اور ان سے تعلقات کی تردید کی۔
تاہم ان شبہات کے باوجود کیتھرین خود کو ایک جاسوس نہیں بلکہ ایک سیاسی مبصر قرار دیتی ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں ایرانی حکام سے ذاتی تعلقات کی بھی تردید کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے کبھی اسرائیل کا سفر نہیں کیا ہے۔
کیتھرین خود کو ایک جاسوس نہیں بلکہ ایک سیاسی مبصر قرار دیتی ہیں،اس سب کے باوجود ایران میں ایک بڑے عوامی حلقے کا ماننا ہے کہ کیتھرین اور اس جیسی دوسری شخصیات نے ایران کے مقتدرہ میں اپنے روابط سے اہم خفیہ معلومات حاصل کرکے دشمن ممالک خصوصاً اسرائیل کو فراہم کی ہوں گی۔ ان شکوک کو تقویت ایران پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے دوران بھی ملی جب ایران کے اندر اہم شخصیات اور تنصیبات کو درست معلومات کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
اس دوران ایران کے اندر جاسوسی کے الزام میں ملوث کئی مبینہ ایجنٹس کو گرفتار اور ہلاک بھی کیا گیا تاہم مسلمان بن کر اعلیٰ ایرانی سیاسی قیادت سے روابط رکھنے والی اور ایران سے متعلق مضامین لکھنے لکھنے والی صحافی کیتھرین شکدم بھی جاسوس ہے یا نہیں اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکی ہے۔