واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی کے درمیان بدھ کی رات ہونے والی ملاقات عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ملاقات کا مقصد غزہ میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کے لیے جاری کوششوں کو تیز کرنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ اس عشائیے میں قطر کے کلیدی ثالثی کردار کو سراہیں گے اور جنگ بندی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے پر زور دیں گے۔امریکی تجویز کردہ 60 روزہ جنگ بندی منصوبے کے تحت غزہ سے اسرائیلی فوج کا مرحلہ وار انخلا، یرغمالیوں کی رہائی اور فریقین کے درمیان براہِ راست مذاکرات شامل ہیں۔
یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب قطر، امریکہ اور مصر ثالثی کردار ادا کر رہے ہیں، جبکہ اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کار قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی روز سے جنگ بندی کے فارمولے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اُمید ظاہر کی ہے کہ "اس ہفتے مذاکرات سیدھی راہ پر آگے بڑھیں گے۔”
صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹکوف نے بھی مذاکراتی عمل سے ’پرامیدی‘ ظاہر کی ہے۔ تاہم اسرائیل اور حماس کے درمیان اختلاف اس بات پر ہے کہ اسرائیلی افواج غزہ سے کس حد تک پیچھے ہٹیں گی۔
یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 58,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ غزہ کو انسانی بحران کا سامنا ہے اور بین الاقوامی عدالت انصاف نے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزامات پر کارروائی کا آغاز بھی کر رکھا ہے، جس کی اسرائیل تردید کرتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے رواں سال غزہ کو امریکی تحویل میں لینے کی متنازعہ تجویز دی تھی جسے عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ اور شیخ محمد کی ملاقات میں ایران کے ساتھ امریکی مذاکرات کی بحالی پر بھی تبادلہ خیال ہوگا، جو خطے کے استحکام کے لیے اہم تصور کی جا رہی ہے۔