دمشق / تل ابیب / سویدا: شام کے جنوبی شہر سویدا میں جاری کشیدگی ایک نئے اور خطرناک مرحلے میں داخل ہو گئی ہے جہاں شامی حکومت اور دروز مسلح گروہوں کے درمیان منگل کے روز طے پانے والی جنگ بندی کی ناکامی کے بعد جھڑپوں میں شدت آ گئی ہے۔ اسی تناظر میں اسرائیل نے دروز اقلیت کے دفاع کے نام پر شامی افواج پر فضائی حملے شروع کر دیے ہیں، جن میں دارالحکومت دمشق کے قریبی علاقوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیل نے سویدا اور اس کے گردونواح میں دروز اور سُنی قبائل کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور حکومت کی عسکری مداخلت کو جواز بنا کر شام پر فضائی حملے کیے ہیں۔ دمشق میں صدارتی محل کے قریب وزارتِ دفاع پر اسرائیلی حملہ اس کا واضح اشارہ ہے کہ اسرائیل اس تنازعے میں براہِ راست مداخلت کے لیے تیار ہے۔
اسرائیلی فوج کا مؤقف ہے کہ وہ شام میں دروز اقلیت کے تحفظ کے لیے یہ کارروائیاں کر رہی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب شام کی سرکاری افواج نے دروز علاقوں میں فوجی کارروائیاں تیز کی ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ دروز اقلیت کے خلاف ظلم کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اسرائیل نے جنوبی شام کو یکطرفہ طور پر "غیر فوجی علاقہ” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس زون میں فوجی سرگرمی یا ہتھیاروں کی تعیناتی ممنوع ہوگی۔ تاہم شامی حکومت نے اس اعلان کو اپنی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ بین الاقوامی برادری نے بھی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں مداخلت سے باز رہے۔
کشیدگی کا آغاز دروز مسلح گروہوں اور مقامی سُنی بدو قبائل کے درمیان اغوا اور جوابی حملوں سے ہوا۔ حکومت نے مداخلت کی تو صورتحال مزید بگڑ گئی۔ جھڑپوں میں اب تک 200 سے زائد ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ شامی وزارت دفاع نے دروز گروہوں پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے جوابی کارروائی کا دعویٰ کیا ہے۔
دروز کون ہیں ؟
دروز ایک مذہبی، نسلی اور لسانی اقلیت ہے جس کی جڑیں 11ویں صدی کے فرقہ اسماعیلیہ سے ملتی ہیں، مگر اب یہ خود کو ایک الگ مذہبی شناخت کے طور پر منواتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فرقہ اسلام سے نکلا ہوا ہے لیکن اس کے عقائد شیعہ، فلسفیانہ اور تصوف کے امتزاج پر مبنی ہیں۔
شام، لبنان، اسرائیل اور اردن میں ان کی آبادی موجود ہے۔ شام میں خاص طور پر سویدا صوبہ ان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
اسرائیل کے شمالی علاقوں کرمل اور گلیل میں تقریباً 1 لاکھ 30 ہزار دروزی آباد ہیں۔ ان کی حیثیت اسرائیل میں ایک اہم اقلیتی گروہ کی ہے۔ دیگر عرب اقلیتوں کے برعکس، 1957 سے دروز نوجوانوں کی اسرائیلی فوج میں لازمی بھرتی کی جاتی ہے۔
یہ افراد اکثر فوج میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے ہیں، اور اسرائیلی سیاسی نظام میں بھی ان کی موجودگی دیکھی گئی ہے۔ اسرائیلی حکومت ان کو "وفادار اقلیت” کے طور پر پیش کرتی ہے، جبکہ ناقدین اسے ریاستی مفادات سے جُڑی پالیسی قرار دیتے ہیں۔
اس وقت صورتحال انتہائی نازک ہے۔ اسرائیلی مداخلت سے نہ صرف شام میں داخلی کشیدگی بڑھ رہی ہے بلکہ علاقائی استحکام کو بھی شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں شام کی خودمختاری کے احترام پر زور دے رہی ہیں اور اسرائیل کو خطے میں کشیدگی کم کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔