واشنگٹن :امریکہ اور بحرین نے سول جوہری توانائی کے میدان میں تاریخی نوعیت کا ایک معاہدہ طے کر لیا ہے، جسے ماہرین خلیجی خطے میں توانائی کے شعبے میں ایک بڑی پیشرفت اور سیاسی طور پر استحکام کی جانب اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔ اس مفاہمتی یادداشت (MoU) پردستخط صدرڈونلڈ ٹرمپ اوربحرین کےولی عہد شہزادہ سلمان بن حماد الخلیفہ کی حالیہ ملاقات کے بعد ممکن ہوئے، جو بدھ کی رات وائٹ ہاؤس میں ہوئی۔
دستخطوں کی باقاعدہ تقریب واشنگٹن میں ہوئی جس میں امریکی وزیر خارجہ مارکو پولیو اور بحرینی وزیر خارجہ عبداللطیف بن راشد الزیانی نے شرکت کی۔ اس موقع پر مارکو پولیو نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ بحرین کو سول جوہری توانائی کی فراہمی اور تحقیق میں معاونت فراہم کی جائے تاکہ وہ دفاعی یا جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں نہ پڑے اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے خطرہ نہ بنے۔
یہ معاہدہ اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کہ بحرین نہ صرف امریکہ کا قریبی اتحادی ہے بلکہ امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ بھی بحرین میں ہی تعینات ہے، جو دونوں ملکوں کے اسٹریٹجک تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے ملاقات کے دوران بحرین کو غیر معمولی اور زبردست اتحادی” قرار دیا اور کہا کہ "میں ذاتی طور پر بھی بحرین کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہوں۔
یاد رہے کہ بحرین نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کی قیادت میں 2020 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ یہ اقدام ابراہم معاہدے کا حصہ تھا، جس کے تحت متحدہ عرب امارات، مراکش اور سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ بحرین کا شمار ان چند خلیجی ریاستوں میں ہوتا ہے جنہوں نے امریکہ کے ساتھ اقتصادی اور دفاعی سطح پر غیر معمولی قربت اختیار کی ہے۔
جوہری توانائی کے حالیہ معاہدے کو خطے میں امریکی اثر و رسوخ کا تسلسل بھی کہا جا رہا ہے، جبکہ بحرین جیسے چھوٹے مگر سٹریٹیجک ملک کے لیے یہ توانائی کے میدان میں خودکفالت حاصل کرنے کی جانب ایک سنہری موقع ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس پیش رفت سے نہ صرف بحرین کو کلین انرجی فراہم ہو سکے گی بلکہ یہ معاہدہ خلیج میں ایران کے بڑھتے ہوئے جوہری اثرات کے مقابلے میں امریکی بلاک کی مضبوطی کا پیغام بھی ہے۔
یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگیوں کے بیچ امن و ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز بن سکتا ہے، خاص طور پر اگر دیگر خلیجی ممالک بھی اسی طرز پر جوہری توانائی کے میدان میں بین الاقوامی تعاون کی راہ اپنائیں۔