صدرِ شام احمد الشرع نے حالیہ خطاب میں واضح کیا کہ شام کبھی بھی علیحدگی یا تقسیم کے نظریات کی زمین نہیں رہا، بلکہ اس کی بنیاد ہمیشہ عوامی وحدت اور قبائلی و ثقافتی یگانگت پر قائم رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست شام کی اصل طاقت اس کے باسیوں کے باہمی اتحاد، ہم آہنگی اور قومی وحدت میں پنہاں ہے۔ ان کے مطابق، قوم کے ہر فرد کی حفاظت اور حقوق کی پاسداری صرف اور صرف شامی ریاست کے ہاتھ میں ہے، نہ کہ کسی بیرونی طاقت کے۔
صدر نے خاص طور پر "سویدا” کے علاقے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں سے ریاستی اداروں کے جزوی انخلاء نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خلا بعض عناصر کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ علیحدگی پسند سوچ کو فروغ دیں اور وہاں کے شہریوں کو غیر ملکی ایجنڈے کا آلہ کار بنائیں۔ لیکن شامی عوام کی اکثریت، خاص طور پر سویدا کے عوام، ہمیشہ ریاست کے ساتھ وفادار رہے ہیں اور انہی کی وفاداری شام کی سالمیت کی اصل ضامن ہے۔
انہوں نے دروز برادری کی حب الوطنی کو سراہا اور واضح کیا کہ کسی بھی فرد کے عمل کو پوری برادری سے منسلک کرنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ عوام کے خلاف ظلم یا زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں، ان کا کڑا احتساب یقینی بنایا جائے گا کیونکہ شام کی ریاست ہر شہری کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔
صدر الشرع نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی طرف سے شام کے اتحاد اور استحکام کے لیے حمایت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے امریکہ کے اُس مؤقف کو سراہا جس میں اس نے اس بحران میں شامی ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں جنگ بندی کی کوششوں میں امریکی کردار اہمیت کا حامل رہا ہے، جبکہ شامی قبائل کی طرف سے اس پر عمل درآمد بھی قابل تحسین ہے۔
اپنے بیان میں صدر نے یہ بھی کہا کہ یورپی یونین، روس اور چین کی طرف سے اسرائیلی بمباری کی مذمت کرنا ایک حوصلہ افزا اشارہ ہے، جس سے بین الاقوامی برادری کے اندر شام کے استحکام، اتحاد اور خودمختاری کے حوالے سے ایک وسیع تر اتفاق رائے سامنے آتا ہے۔ یہ حمایت اس بات کی علامت ہے کہ دنیا شام کو ایک متحد، خودمختار اور خوداعتماد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے۔
خطاب کے اختتام پر انہوں نے یہ عزم دہرایا کہ شامی ریاست نہ صرف اپنے عوام کی بقا کے لیے پرعزم ہے بلکہ کسی بھی علیحدگی پسند نظریے کو جڑ پکڑنے کی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ شام کے اندرونی مسائل کا حل صرف شامی عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان اعتماد و تعاون سے ہی نکل سکتا ہے، نہ کہ بیرونی مداخلت سے۔