ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان پر ہونے والی مبینہ قاتلانہ کارروائی کی ویڈیو نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی ہے۔ ایران کے ایک عربی زبان ویب پلیٹ فارم "ایران بالعربیہ” نے ایک چونکا دینے والی فوٹیج جاری کی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 16 جون کو ایک خفیہ مقام پر ایرانی صدر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
یہ حملہ اسرائیلی افواج کی بمباری کے ذریعے اس وقت کیا گیا جب قومی سلامتی کونسل کا اعلیٰ سطحی اجلاس جاری تھا، جس کی سربراہی خود صدر پزشکیان کر رہے تھے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اس ویڈیو کو نشر کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حملے کا ہدف وہی مقام تھا جہاں حکومت کے اہم ترین سیکیورٹی حکام جمع تھے۔ اس اجلاس میں ایران کے تینوں طاقتور اداروں کے سربراہان، دیگر اعلیٰ سیکیورٹی افسران اور اہم عہدیدار شریک تھے۔
صدر پزشکیان نے بعد ازاں ایک امریکی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ واقعی اس حساس اجلاس میں شریک تھے، جس پر اسرائیلی افواج نے بمباری کی۔ انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ وہ اس حملے میں محفوظ رہے اور بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم، انہوں نے نہ تو حملے کی مکمل تفصیل دی اور نہ ہی اپنی جسمانی حالت یا چوٹوں کا ذکر کیا۔
تاہم، ایرانی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی "فارس” نے اس انٹرویو کے بعد ایک رپورٹ جاری کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ صدر کو معمولی نوعیت کی چوٹیں آئیں، بالخصوص ان کی ٹانگ پر زخم آئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، حملے کے وقت ایرانی قیادت عمارت کی نچلی منزلوں پر موجود تھی، جو انہیں نسبتاً محفوظ مقام فراہم کرتا تھا۔
اسی وجہ سے حکام حملے کے فوراً بعد ایک خفیہ راستے کے ذریعے عمارت سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ خصوصی راستہ پہلے ہی کسی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر تیار کیا گیا تھا۔
فارس ایجنسی نے مزید بتایا کہ اسرائیلی بمباری انتہائی منظم انداز میں کی گئی۔ دشمن نے عمارت کے داخلی اور خارجی راستوں کو نشانہ بنایا تاکہ وہاں موجود افراد کو فرار ہونے سے روکا جا سکے اور عمارت میں ہوا کی آمد و رفت کو بند کر کے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق، چھ راکٹ یا بم عمارت کے مختلف حصوں پر داغے گئے۔
اس واقعے نے خطے میں موجودہ کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی اعلیٰ قیادت پر اس طرح کا براہ راست حملہ نہ صرف ایران کو اندرونی طور پر اضطراب کا شکار کر سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک نیا بحران جنم دے سکتا ہے۔
ایران کی جانب سے اس واقعے پر تاحال مکمل خاموشی نہیں اپنائی گئی، لیکن سرکاری بیانات کی بجائے خبری ایجنسیوں اور غیر سرکاری ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات نے اس حملے کی سنگینی کو آشکار کر دیا ہے۔
اس واقعے کے بعد ایرانی سیکیورٹی اداروں نے صدر کی سلامتی کے لیے حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیے ہیں اور قومی سلامتی کونسل کے اجلاسوں کی جگہوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔