بین الاقوامی سطح پر ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کشیدگی ایک مرتبہ پھر عروج پر ہے، اور اس مرتبہ تنبیہ کا محور یورپی طاقتیں ہیں، جو ایران کی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہی ہیں۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے منگل کے روز ایک سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تہران پر دوبارہ بین الاقوامی پابندیاں عائد کی گئیں تو اس سے صرف حالات مزید خراب ہوں گے، اور مسئلے کے حل کے امکانات مزید معدوم ہو جائیں گے۔
یہ بیان ایک نہایت نازک وقت پر سامنے آیا ہے، کیونکہ ایران کو آئندہ جمعے کو برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے ایک اہم سفارتی ملاقات میں شریک ہونا ہے، جہاں جوہری معاہدے کے مستقبل پر بحث کی جائے گی۔
اس تناظر میں ایرانی سفارت کار کی جانب سے آنے والا یہ انتباہ درحقیقت ان ممکنہ دباؤ کا جواب ہے جو یورپی ممالک ایران پر ڈالنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
یورپی یونین کے تین طاقتور رکن ممالک — فرانس، برطانیہ اور جرمنی — نے گزشتہ دنوں واضح طور پر کہا ہے کہ اگر ایران نے اپنے جوہری پروگرام میں مثبت پیش رفت نہ دکھائی تو وہ اقوامِ متحدہ کے سنیپ بیک میکنزم کو فعال کرنے کے لیے باضابطہ درخواست دے سکتے ہیں۔
اس میکنزم کے تحت، ایران پر سابقہ تمام اقوام متحدہ کی پابندیاں ازخود دوبارہ نافذ ہو سکتی ہیں، بغیر کسی اضافی قرارداد یا ووٹنگ کے۔
یہ اقدام، جو کہ عالمی سطح پر ایران کی تنہائی کو بڑھا سکتا ہے، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت ممکن ہے، جو 2015 کے ایران جوہری معاہدے (جسے JCPOA کہا جاتا ہے) کے دائرہ کار میں آتی ہے۔
اگر سنیپ بیک میکنزم کو متحرک کر دیا گیا تو نہ صرف ایران پر اسلحے کی خرید و فروخت پر دوبارہ پابندیاں عائد ہوں گی بلکہ اس کی معیشت پر بھی عالمی دباؤ شدید ہو جائے گا۔
تہران کی جانب سے ایک بار پھر واضح کیا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی کارروائی سے خطے میں عدم استحکام بڑھے گا اور جوہری مذاکرات کے دروازے مستقل طور پر بند ہو سکتے ہیں۔ کاظم غریب آبادی نے زور دیا کہ بین الاقوامی برادری کو تصادم کے بجائے تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور ایران کو زبردستی جھکانے کی کوششیں ترک کر دینی چاہییں۔
ایران کا مؤقف ہے کہ وہ جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے چلا رہا ہے، جب کہ مغربی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ ایران تیزی سے افزودہ یورینیم کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے۔ یورپی ممالک کی طرف سے دیا گیا ڈیڈ لائن — یعنی اگست کے اختتام تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں پابندیوں کی بحالی — تہران کے لیے ایک سنجیدہ انتباہ سمجھا جا رہا ہے۔