امریکا کی جانب سے ایران کی تیل برآمدات پر عائد پابندیوں سے متعلق حالیہ الزامات کے جواب میں عراقی حکام نے دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ ملک کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عراق کی بندرگاہوں یا سمندری حدود میں نہ تو اسمگلنگ کی سرگرمیاں جاری ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی تیل کی ملاوٹ کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
عراق کی سرکاری تیل مارکیٹنگ کمپنی سومو کے ڈائریکٹر علی نزار نے سرکاری خبر رساں ادارے آئی این اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عراق میں ایسے مراکز موجود ہیں جہاں ایرانی تیل کو عراقی تیل میں ملا کر یا اس کی شناخت بدل کر بین الاقوامی منڈی میں بھیجا جاتا ہے، لیکن یہ سب بے بنیاد اور جھوٹے الزامات ہیں۔ ان کے مطابق ملک کی سمندری حدود میں سخت نگرانی ہوتی ہے اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔
یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب امریکی محکمہ خارجہ نے جولائی کے آغاز میں چھ مختلف کمپنیوں اور چار بحری جہازوں پر پابندیاں عائد کیں۔ امریکی الزامات کے مطابق یہ کمپنیاں اور جہاز ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی خرید و فروخت، حصول، نقل و حمل یا مارکیٹنگ جیسے بڑے تجارتی لین دین میں ملوث رہے ہیں۔
امریکی فہرست میں شامل اداروں میں ایک ایسا نیٹ ورک بھی شامل تھا جسے عراقی تاجر سلیم احمد سعید چلا رہے ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ یہ نیٹ ورک ایرانی تیل کو اس طرح اسمگل کرنے میں ملوث رہا کہ اسے بظاہر عراقی تیل ظاہر کیا جاتا یا دونوں کو ملا کر فروخت کیا جاتا۔
ان الزامات کے بعد منگل کے روز ایک فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے صحافی نے، عراقی حکام کی دعوت پر، جنوبی عراق کے ساحلی پانیوں میں بحری عملے کے ساتھ ایک آپریشن میں شرکت کی۔ اس دوران تیل بردار جہازوں کے کاغذات اور دستاویزات کی جانچ پڑتال کی گئی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی غیر قانونی سرگرمی نہ ہو رہی ہو۔
دوسری جانب، ایران نے امریکا کی جانب سے اپنے تیل کے شعبے پر عائد پابندیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جولائی کے آخر میں عائد کی گئی اضافی پابندیوں کے بارے میں تہران کا کہنا ہے کہ یہ ایک “شرانگیز اور بدنیتی پر مبنی اقدام” ہے جس کا مقصد ایرانی عوام کی معیشت، ترقی اور فلاح و بہبود کو نقصان پہنچانا ہے۔