غزہ کی مٹی اور ملبے کے بیچ، اور خوف میں ڈوبے چہروں کے درمیان، ایک شخص خاموش مگر مضبوط کھڑا تھا۔ اس کا نام باسِم الحبل ہے، عمر تیس برس، جو خود کو انسٹاگرام پر "غزہ کا بہرا صحافی” کہتا ہے۔ اس کے اردگرد لوگ زمین پر لیٹے ہوئے اپنی جانیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے، مگر وہ اپنے ہاتھوں کی حرکات اور اشاروں کے ذریعے سننے سے محروم فلسطینیوں اور دنیا بھر کے خصوصی افراد کو جنگ کے خطرات سمجھا رہا تھا۔
باسِم کی زندگی کا مقصد اس جنگ کی ہولناکیوں کو سب تک پہنچانا ہے — چاہے وہ اسرائیلی فضائی حملوں کی تباہ کاری ہو یا وہ قحط جو اب غزہ کی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی کوشش ہے کہ وہ اپنے جیسے بہرے اور گونگے لوگوں کی آواز دنیا تک پہنچائے تاکہ کوئی ان کی مدد کرے۔ اس کا پیغام صاف ہے: “ہم بھی انسان ہیں، ہمیں بھی جینے کا حق ہے۔”
غزہ کے رہائشی دو سال سے مسلسل بمباری کے سائے میں جی رہے ہیں۔ مقامی حکام کے مطابق، اب تک 60 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں، مگر پھر بھی دنیا کی خاموشی ٹوٹتی نہیں۔ اس ماحول میں، باسِم الحبل نے فیصلہ کیا کہ وہ خاموش نہیں رہے گا۔ اپنے دوست اور مترجم محمد مشتہٰ کے ذریعے وہ کہتا ہے: “میں چاہتا تھا کہ میری اور بہرے لوگوں کی آواز دنیا تک پہنچے۔ میں نے جہاں جہاں موقع ملا، ویڈیوز بنائیں اور شائع کیں تاکہ دنیا کو ہماری حالت کا پتہ چل سکے۔”
انسٹاگرام پر اس کے 1,41,000 سے زیادہ فالوورز ہیں۔ اس کے پیج پر وہ خود کو بُلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ میں دکھاتا ہے، اور پس منظر میں تباہ شدہ عمارتیں، بھوک سے نڈھال بچے، اور ملبے میں کھوج لگاتے لوگ نظر آتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں، وہ دکھاتا ہے کہ لوگ زمین پر بکھرے آٹے کو، جو ریت میں ملا ہوا ہے، کچرے کی طرح سمیٹ رہے ہیں۔ اشاروں میں وہ کہتا ہے: “یہ دیکھیں، لوگ یہ ملا جلا آٹا چن رہے ہیں کیونکہ بھوک نے سب کو توڑ دیا ہے۔”
باسِم اور اس کا خاندان جنگ کے آغاز پر اپنے گھر سے بے گھر ہو گئے۔ انہوں نے ایک اسکول میں پناہ لی جو خیموں سے بھرا ہوا تھا۔ “وہاں اتنی بھی جگہ نہیں تھی کہ کوئی آرام سے بیٹھ سکے۔ ہم نے ڈیڑھ سال وہیں گزارا،” وہ بتاتا ہے۔ اس کے روزمرہ کا معمول یہ ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں جا کر ویڈیوز بناتا ہے، پھر واپس آ کر اپنے خیمے میں بیٹھ کر انہیں ایڈٹ کرتا ہے تاکہ دنیا تک پہنچا سکے۔
باسِم کو اندازہ ہے کہ یہ جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جنگ بندی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے، اور امن کی امید دھندلائی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود، اس کا عزم قائم ہے۔ وہ کہتا ہے: “میری خواہش ہے کہ یہ صورتحال ختم ہو، ہم سب خوشی سے جی سکیں، میں اپنے بچوں کو کھلا سکوں، اور زندگی پھر خوبصورت ہو جائے۔”