تہران: ایرانی سرکاری میڈیا نےگزشتہ روز ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ایران نے تہران، اصفہان، مشہد، خرم آباد اور مہاباد سمیت متعدد شہروں میں میزائل مشقیں کی ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ یہ مشقیں ملکی دفاع کو مضبوط بنانے اور کسی بھی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے کی گئی ہیں، اور ایرانی میزائل پروگرام کسی بھی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے تہران میں ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ایرانی میزائل پروگرام مکمل طور پر دفاعی نوعیت کا ہے اور اس کا مقصد کسی جارح ملک یا قوت کے ممکنہ حملے سے ایران کی سرزمین کا تحفظ کرنا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایران کی دفاعی صلاحیتیں مذاکرات یا کسی عالمی دباؤ کے لیے استعمال نہیں کی جائیں گی۔
دوسری جانب، امریکہ نے ایرانی بیلسٹک میزائل پروگرام میں تیزی سے پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ایران پر مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے این بی سی کے مطابق، واشنگٹن کے حکام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے خلاف دستیاب آپشنز سے آگاہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جس میں ممکنہ عسکری اقدامات بھی شامل ہیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ جون میں 12 روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد خطے میں تناؤ میں اضافہ ہوا تھا۔ اس تنازع میں اسرائیل نے ایران کی فوجی اور جوہری تنصیبات کے ساتھ رہائشی علاقوں پر فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں ایران میں تقریباً ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ ایران کے جواب میں اسرائیل کی سرزمین پر ایرانی میزائل حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 28 افراد ہلاک ہوئے۔
ایران، جو سخت بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہے، مقامی سطح پر تیار شدہ دفاعی ہتھیاروں کا ایک وسیع ذخیرہ رکھتا ہے، جس میں فضائی دفاعی نظام، بیلسٹک میزائل اور بغیر پائلٹ طیارے شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے دفاعی اقدامات اس کی خودمختاری اور سرزمین کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہیں، تاہم عالمی طاقتیں ان پر سخت نظر رکھے ہوئے ہیں، جس سے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا امکان بڑھ رہا ہے
