امریکی اعلیٰ حکومتی حلقوں نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر سے متعلق اسرائیلی قیادت کے مسلسل اور سخت بیانات پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اشتعال انگیز اور خطے کے امن کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
عبرانی اخبار یدیعوت آحرونوت سے وابستہ ویب سائٹ وائی نیٹ نیوز کے مطابق وائٹ ہاؤس میں بااثر امریکی ذرائع نے اسرائیلی حکومت، خصوصاً وزیر دفاع یسرائیل کاتز اور دیگر وزرا کے بیانات پر کڑی تنقید کی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق یہ بیانات مشرق وسطیٰ میں جامع امن کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے میں ممکنہ پیش رفت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس ذرائع کے مطابق اسرائیلی قیادت کے ایسے بیانات نہ صرف صورتحال کو مزید کشیدہ بنا رہے ہیں بلکہ مزید عرب ممالک کو امن منصوبے میں شامل ہونے سے بھی دور کر رہے ہیں۔ امریکی حلقوں کا کہنا ہے کہ تمام فریقین پر لازم ہے کہ وہ امن کے لیے کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں۔
واضح رہے کہ یسرائیل کاتز نے گزشتہ منگل کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے شمالی حصے میں آباد کاری کے مراکز قائم کرے گا۔ امریکی اعتراض کے بعد وہ اس بیان سے پیچھے ہٹ گئے اور وضاحت کی کہ ان کا مقصد صرف عارضی فوجی رہائشی مراکز قائم کرنا تھا۔
تاہم یہ وضاحت زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی، کیونکہ جمعرات کو یسرائیل کاتز نے دوبارہ اسی نوعیت کے بیانات دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ یہ موقف وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے بیانات سے مکمل ہم آہنگ دکھائی دیا، جنہوں نے حکومتی انتہا پسند عناصر کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی۔
تل ابیب کے سیاسی ذرائع کے مطابق بنیامین نیتن یاہو کا ارادہ ہے کہ وہ آئندہ پیر کو میامی میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران ان سے اس بات کی منظوری حاصل کریں کہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان قائم کی گئی "یلو لائن” کو مستقل سرحد تسلیم کر لیا جائے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ کی پٹی کے 58 فی صد علاقے کو اسرائیل میں ضم کر کے اس پر اسرائیلی حاکمیت قائم کی جا سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق نیتن یاہو یہ مؤقف بھی اپنارہے ہیں کہ جو اسرائیلیوں کو قتل کرے گا، وہ زمین سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔اس بیان کے ذریعے غزہ میں اسرائیلی فوجی قبضے میں اضافے کو جواز فراہم کیا جا رہا ہے، جو جنگ بندی کے وقت 53 فی صد تھا اور اب بڑھ کر 58 فی صد تک پہنچ چکا ہے۔
اسی تناظر میں وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے ایک بار پھر واضح کیا کہ اسرائیل اپنے منصوبوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ انہوں نے دائیں بازو کے آباد کار نواز اخبار "مکور ریشون” کے زیر اہتمام منعقدہ تعلیمی کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل غزہ کے شمالی حصے میں آباد کاری کے مراکز قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور غزہ کے اندر ایک وسیع سکیورٹی زون برقرار رکھا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حماس کو غیر مسلح کر دیا جائے اور اس کی عسکری صلاحیتیں ختم بھی ہو جائیں، تب بھی غزہ کے اندر ایک بڑا سکیورٹی زون قائم رہے گا، اور مستقبل میں منظم طریقے سے نئی بستیوں کے مراکز بنائے جا سکتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزارت خارجہ نے مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی تعمیر کے فیصلے پر 14 ممالک کی جانب سے کی گئی مذمت کو مسترد کرتے ہوئے اسے اخلاقی غلطی اور یہودیوں کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیلی قیادت کے یہ بیانات اور اقدامات نہ صرف فلسطینی تنازع کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تناؤ میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔
