اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے محققین نے سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے مظاہرین کے خلاف منظم اور مہلک تشدد کا استعمال کیا، جو ممکنہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، حکومت کی پالیسی کے تحت سیکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس اداروں نے حکومت مخالف مظاہرین کو دبانے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی سے اگست 2023 کے درمیان ہونے والے احتجاج میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے اکثریت کو سیکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا۔
یہ مظاہرے ابتدا میں سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کی قیادت میں شروع ہوئے تھے، لیکن جب پولیس کے کریک ڈاؤن میں اموات ہوئیں تو احتجاج حکومت کے خاتمے کی ایک بڑی تحریک میں تبدیل ہو گیا۔
تشدد کے نتیجے میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے، اور یہ 1971 کی جنگِ آزادی کے بعد ملک میں بدترین بدامنی ثابت ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سابق حکومت کے عہدیداروں اور سیکیورٹی اداروں نے براہ راست اس کریک ڈاؤن کو منظم کیا اور سیاسی قیادت نے بڑے پیمانے پر آپریشنز کی نگرانی کی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے اعلیٰ حکام نے غیر قانونی قتل، من مانی گرفتاریوں اور تشدد کی ہدایات دی تھیں۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ احتجاج کے دوران نہ صرف عام شہریوں بلکہ بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، ہلاک ہونے والوں میں تقریباً 13 فیصد بچے تھے۔
کئی مظاہرین کو قریب سے گولی مار دی گئی، کچھ کو جان بوجھ کر معذور کر دیا گیا، اور بے شمار افراد کو غیر قانونی طور پر گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
شیخ حسینہ، جو 15 سال تک اقتدار میں رہیں، گزشتہ سال اگست میں عوامی احتجاج شدت اختیار کرنے کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہو گئی تھیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے اپنی تحقیقات کے دوران 230 سے زائد افراد سے انٹرویوز کیے، جن میں متاثرین، عینی شاہدین اور سابق حکومتی اہلکار شامل تھے۔
انہیں طبی فائلوں، تصاویر، ویڈیوز اور دیگر شواہد تک بھی رسائی دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو جان بوجھ کر قتل کرنے یا انہیں مستقل جسمانی نقصان پہنچانے کے واقعات کو مربوط طریقے سے انجام دیا۔
کچھ افراد کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئیں، جبکہ دیگر کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اگرچہ زیادہ تر تشدد کی کارروائیاں حکومتی سیکیورٹی فورسز سے منسلک ہیں، لیکن کچھ حملے ان افراد پر بھی کیے گئے جو سابق حکومت کے حامی سمجھے جاتے تھے یا مخصوص مذہبی و نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ان واقعات کی بھی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ رپورٹ بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس کی درخواست پر تیار کی گئی، جنہوں نے کہا کہ ان کی عبوری حکومت ملک کو ایک ایسا مقام بنانا چاہتی ہے جہاں تمام شہری امن اور وقار کے ساتھ رہ سکیں۔
اقوام متحدہ کے فراہم کردہ ہلاکتوں کے اعداد و شمار بنگلہ دیشی حکومت کے 834 اموات کے دعوے سے کہیں زیادہ ہیں۔
فی الحال، سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ یا ان کی جماعت عوامی لیگ کی طرف سے اس رپورٹ پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔