بلوچستان کے معدنی خزانوں نےایک بار پھر دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے۔ ریکوڈک منصوبے کی تازہ ترین فزیبلٹی اسٹڈی نے تصدیق کی ہے کہ یہاں 13.1 ملین ٹن تانبے اور 17.9 ملین اونس سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جن کی موجودہ مارکیٹ ویلیو 60 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے ایک تبدیلی کا نقطہ ثابت ہوگا، بلکہ اس کی انوکھی خصوصیت مکمل طور پر شمسی توانائی پر چلنے والی کان کنی نے اسے عالمی سطح پر ایک منفرد مقام دلوا دیا ہے۔
2028 میں شروع ہونے والے پہلے مرحلے میں سالانہ 45 ملین ٹن مواد کی پروسیسنگ کا منصوبہ ہے، جسے 2034 تک 90 ملین ٹن سالانہ تک بڑھانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق اس منصوبے سے 25 فیصد کے قریب منافع کی شرح حاصل ہونے کی توقع ہے، جو اسے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے انتہائی پرکشش بناتی ہے۔
حکومتی سطح پر اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ OGDCL، PPL اور GHPL جیسی سرکاری کمپنیوں نے اپنی سرمایہ کاری کو دوگنا سے زیادہ بڑھا کر 1.9 ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے۔ یہ اقدام اس منصوبے کے معاشی پہلوؤں پر حکومتی اعتماد کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔
بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے یہ منصوبہ ایک سنگ میل ثابت ہوگا، جو نہ صرف ہزاروں براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا کرے گا، بلکہ علاقائی انفراسٹرکچر کو بھی جدید بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ عالمی منڈی میں دھاتوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر، ریکوڈک منصوبہ پاکستان کو معدنی برآمدات کے میدان میں ایک اہم کھلاڑی بنا سکتا ہے۔
ماحولیاتی نقطہ نظر سے بھی یہ منصوبہ ایک مثال قائم کر رہا ہے، جہاں روایتی کان کنی کے برعکس صاف اور قابل تجدید توانائی کے استعمال نے اسے بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے پائیدار ترقی کی ایک روشن مثال ہے۔

Add A Comment