اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حالیہ مہینوں میں 5.5 ارب ڈالر کی غیر معمولی خریداری کر کے مارکیٹ کو حیران کر دیا ہے، مگر یہ کھیل اب بھی خطرناک توازن پر کھیلا جا رہا ہے۔ جون سے دسمبر 2024 تک جاری رہنے والی اس ڈالر ہنٹ میں مرکزی بینک کا ہر ماہ کا ہدف بڑھتا گیا – 57 کروڑ ڈالر سے لے کر نومبر میں 115 کروڑ ڈالر تک صرف دسمبر میں اس میں 50 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ ماہرین کے مطابق یہ رقوم آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام سے ملنے والے قرضے کو بھی پیچھے چھوڑ سکتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کامیابی ہے یا مایوسی کا نیا باب؟
حیرت انگیز طور پر ڈالر کی اس بڑے پیمانے پر خریداری کے باوجود، اسٹیٹ بینک کے ذخائر 54 کروڑ ڈالر گر کر 10.6 ارب ڈالر پر آ گئے ہیں -ذخائراس وقت چھ ماہ کی کم ترین سطح پرہیں۔ یہ المناک صورتحال اس وقت سامنے آئی ہے جب ملک کو رواں سال 35 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر، آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر، اور 14 ارب ڈالر کے قرضوں کے رول اوور کی سہولت میسر آئی ہے۔ فروری تک صرف 8 ماہ میں ہی ترسیلات زر 6 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں، مگر اقتصادی مینیجرز انہیں مؤثر طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
بینکاری حلقوں کا ماننا ہے کہ آئی ایم ایف کی پابندیوں نے اسٹیٹ بینک کو 12 فیصد شرح سود میں کمی سے روک رکھا ہے۔ یہ پالیسی اگرچہ درآمدات کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے، لیکن صنعت و تجارت کو سست قرضوں سے محروم کر کے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر رہی ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر برآمدات میں فوری بہتری نہ آئی تو اگلے مالی سال میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ اور بڑھ سکتا ہے۔
حکومت کے سامنے اب دوہرا چیلنج ہے – ایک طرف تو اسے 13 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف ہدف کو پورا کرنا ہے، دوسری جانب 1.3 ارب ڈالر کے موسمیاتی فنڈز تک رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ موجودہ صورتحال میں صرف ایک ہی راستہ نظر آتا ہے: ترسیلات زر اور دیگر بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والے ڈالرز کو معیشت کی بنیادی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کرنا، ورنہ یہ تمام رقم قرضوں کی ادائیگیوں میں ہی ضائع ہو جائے گی۔ کیا پاکستانی معیشت کے مینیجرز اس مشکل ترین توازن کو برقرار رکھ پائیں گے؟ وقت ہی بتائے گا۔