واشنگٹن: امریکا نے چین کی ٹیکنالوجی ترقی کو روکنے کے لیے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے 80 سے زائد چینی ٹیک کمپنیوں کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے، جن میں سے زیادہ تر مصنوعی ذہانت (اے آئی)، سپر کمپیوٹنگ اور کوانٹم ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں۔ یہ اقدام چین کی فوجی اور ٹیکنالوجی طاقت کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے، جس کے بعد اب امریکی کمپنیاں انہیں بغیر اجازت کے کوئی بھی ٹیکنالوجی فراہم نہیں کر سکیں گی۔
امریکی محکمہ تجارت کے مطابق، اس فہرست میں ہواوے اور اس کی چپ بنانے والی کمپنی ہائی سلیکون کے علاوہ انسپر گروپ کی 6 ذیلی کمپنیاں بھی شامل ہیں، جن پر الزام ہے کہ وہ چینی فوج کو جدید ٹیکنالوجی مہیا کر رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں کوانٹم کمپیوٹنگ، ہائی پرفارمنس چپس اور فوجی استعمال کی ٹیکنالوجی میں ملوث ہیں۔
چینی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو غیرمنصفانہ اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا قومی سلامتی کے نام پر چین کی ترقی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔چین نے خبردار کیا کہ وہ اس کا سخت جواب دے گا۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ماہر ایلکس کیپری کا کہنا ہے کہ چین تیسرے ممالک کے ذریعے امریکی ٹیکنالوجی اسمگل کرنے میں ماہر ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا، چینی کمپنیاں ملائیشیا، سنگاپور اور دیگر ممالک کے ذریعے پابندیاں گول کر لیتی ہیں۔
چینی اے آئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے اوپن سورس اور کم لاگت والے اے آئی ماڈلز کے ذریعے امریکی کمپنیوں جیسے OpenAI اور اینویڈیا کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکا کو خدشہ ہے کہ چین سستی اور طاقتور اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی مارکیٹ پر قبضہ کر سکتا ہے۔
امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ چپ اسمگلنگ اور ٹیکنالوجی چوری پر نظر رکھیں گے، لیکن ماہرین کے مطابق چین نے ماضی میں بھی پابندیوں کو کمزور کرنے کے طریقے ڈھونڈ لیے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکا اس بار چین کو مکمل طور پر روک پائے گا، یا چین ایک بار پھر یکنالوجی گیم میں آگے نکل جائے گا؟