یقین، ہنر اور استقامت جب یکجا ہو جائیں تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے، اور اس کی جیتی جاگتی مثال چین کے شہر ووہان سے تعلق رکھنے والا 31 سالہ نوجوان، چِن زاؤ ہے۔
ایک ایسا نوجوان جس نے چینی خطاطی میں مہارت کو اپنا وسیلہ بنا کر وہ کارنامہ انجام دیا جسے سن کر ہر سننے والا داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
چِن زاؤ نے صرف اپنی محنت اور فن کے بل بوتے پر اپنے والدین پر چڑھے ہوئے 2 کروڑ یوآن یعنی پاکستانی کرنسی میں 7 کروڑ 69 لاکھ روپے سے زائد کے قرض کو مکمل طور پر اتار دیا۔
اس نے بچپن میں محض پانچ برس کی عمر میں خطاطی کا شوق اپنایا، جب بیشتر بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں، وہ اس قدیم چینی فن کی باریکیوں کو سیکھنے میں جُتا ہوا تھا۔
ابتدا میں اس کے والدین کو خطاطی کے ذریعے روزگار کے امکانات پر شک تھا، اور وہ اکثر اسے بزنس یا دیگر عملی شعبوں میں جانے کا مشورہ دیتے تھے۔
والدین کی خواہش کے برخلاف چِن زاؤ نے اپنی لگن اور فن سے محبت کو ترجیح دی اور فائن آرٹس کے ادارے میں داخلہ لیا جہاں اس نے خطاطی کو اپنا مرکزی مضمون بنایا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب اسے موقع ملا کہ وہ اپنے والدین کے ملبوسات تیار کرنے کے کاروبار میں شامل ہو، تو اس نے اس راہ پر چلنے سے انکار کیا اور اپنی الگ راہ چنی۔
اس نے ووہان میں اپنا خطاطی اسٹوڈیو قائم کیا اور اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھالنے کا آغاز کیا۔
سال 2017 میں اسے فرانس میں چینی خطاطی کے ایک ادارے میں کام کرنے کا موقع ملا، لیکن حالات نے کروٹ بدلی اور خاندانی کاروبار بند ہو گیا، والدین پر بھاری قرض چڑھ گیا، اور والد بیمار پڑ گئے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب چِن زاؤ نے فیصلہ کیا کہ اب اسے اپنے فن کو صرف شوق نہیں بلکہ ذریعہ معاش بنانا ہوگا۔
چِن زاؤ نے اپنے اسٹوڈیو کو وسعت دی، ٹیوشن فیس میں اضافہ کیا، اور دن رات محنت سے کام لیتے ہوئے طلبہ کی تعداد کو 300 سے زائد تک پہنچا دیا۔
وہ صبح سے شام تک بچوں کو خطاطی سکھانے میں مصروف رہتا اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے خطاطی سے جڑی مصنوعات کی فروخت سے بھی آمدنی حاصل کرتا رہا۔
آخرکار برسوں کی مسلسل محنت رنگ لائی، اور ستمبر 2024 میں چِن زاؤ نے والدین کا سارا قرض ادا کر دیا۔
سب سے بڑی خوشی اس کے لیے یہ نہیں تھی کہ قرض اتر گیا، بلکہ یہ تھی کہ وہ والدین جو اس فن کو ناکارہ تصور کرتے تھے، اب نہ صرف اس کے حامی بن چکے تھے بلکہ اس کے کام میں اس کا ساتھ بھی دے رہے تھے۔
چِن زاؤ کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر لگن سچی ہو اور مقصد واضح، تو حالات کیسے بھی ہوں، منزل کا حصول ممکن ہے۔
یہ صرف ایک فرد کی کامیابی کی کہانی نہیں بلکہ فن، عزم اور خاندانی محبت کا دل چھو لینے والا باب ہے۔