بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مؤقف میں کسی قسم کی نرمی یا لچک کے امکان کو رد کرتے ہوئے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ امریکہ اب ان ممالک کے ساتھ عدم توازن پر مبنی تجارتی تعلقات جاری نہیں رکھے گا، جو اس کے لیے خسارے کا باعث بن رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک دنیا کے دیگر ممالک اپنے تجارتی حجم کو امریکہ کے مساوی سطح پر نہیں لاتے، تب تک واشنگٹن حکومت درآمدی اشیاء پر عائد اضافی محصولات واپس نہیں لے گی۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یہ بات کہی کہ اگرچہ وہ عالمی منڈی میں استحکام کے خواہاں ہیں، لیکن بعض اوقات کسی بگاڑ کو سدھارنے کے لیے سخت اقدامات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنی بات کو ایک طبی تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ "کبھی کبھی مرض کے علاج کے لیے دوا ضرور لینا پڑتی ہے۔
ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ انہوں نے یورپ، ایشیا اور دنیا کے مختلف خطوں کے رہنماؤں سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے اور انہیں امید ہے کہ کئی ممالک جلد باقاعدہ تجارتی معاہدوں کے لیے آمادگی ظاہر کریں گے۔
تاہم اس وقت تک امریکہ اپنے اقتصادی مفادات کی حفاظت کے لیے پرعزم اور ثابت قدم رہے گا۔
ادھر پیر کے روز عالمی مالیاتی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال اور گراوٹ کا رجحان برقرار رہا۔
وال اسٹریٹ سمیت ایشیائی مالیاتی مراکز جیسے جاپان، تائیوان، سنگاپور اور جنوبی کوریا میں بھی شدید مندی دیکھنے میں آئی۔
جاپان کے نکی 225 انڈیکس میں 6.5 فیصد کمی واقع ہوئی، تائیوان کی سٹاک مارکیٹ 10 فیصد نیچے گئی، سنگاپور کی مارکیٹ میں 8.5 فیصد اور جنوبی کوریا کی مالیاتی منڈی میں 5 فیصد کی گراوٹ ریکارڈ کی گئی۔
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے بیان میں عوام کو تسلی دیتے ہوئے لکھا کہ ہم آخرکار کامیاب ہوں گے، بس استقامت دکھانے کی ضرورت ہے۔
یہ عمل شاید فوری طور پر آسان نہ ہو، لیکن ہمیں طویل المدتی کامیابی پر نگاہ رکھنی چاہیے۔
امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے بھی صدر ٹرمپ کے تجارتی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تجارتی عدم توازن ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے جسے چند دنوں یا ہفتوں میں بات چیت سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب دیگر ممالک کی تجاویز اور نیت کو پرکھے گا اور صرف ان سے معاہدہ کرے گا جن کی پیشکشیں مستند اور قابلِ اعتبار ہوں گی۔
مزید برآں، امریکہ بھر میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے صدر ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی۔
رپورٹس کے مطابق ملک کی مختلف ریاستوں میں تقریباً بارہ سو سے زائد مقامات پر احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا گیا جن میں ٹرمپ اور ان کے ارب پتی مشیر ایلون مسک کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ مظاہرے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ امریکہ کی اندرونی فضا میں صدر کی پالیسیوں پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے، خصوصاً جب وہ پالیسیاں معیشت، عالمی تجارت اور عام صارفین پر براہِ راست اثر ڈالتی ہوں۔