پاکستان، خاص طور پر لاہور، اس وقت شدید فضائی آلودگی کا سامنا کر رہا ہے، جس کی وجہ سے ہوا کا معیار انتہائی خراب ہو چکا ہے۔
اس آلودگی کی وجہ سے لوگوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی فضائی آلودگی انڈیکس (AQI) میں لاہور کا درجہ مسلسل بلند ہے۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق لاہور کا AQI 300 سے زیادہ ہے، جو انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ لاہور کے علاوہ کراچی، پشاور، اور فیصل آباد میں بھی AQI کی سطح 250 کے قریب ہے۔
فضائی آلودگی کی بنیادی وجوہات میں صنعتی فضلہ، زیادہ تعداد میں گاڑیاں، دھوئیں کا اخراج، اور کھیتوں میں آگ لگانا شامل ہیں۔
یہ عوامل ہوا میں زہریلے مادوں کی مقدار کو بڑھا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سانس کی بیماریوں اور دیگر صحت کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستانی حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ وفاقی حکومت نے "نیشنل کلین ایئر پروگرام” شروع کیا ہے، جس کا مقصد فضائی آلودگی کو کم کرنا ہے۔
اس پروگرام کے تحت مختلف شہروں میں ماحولیاتی نگرانی کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے اور فضائی آلودگی کے ذرائع کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ، لاہور ہائی کورٹ نے اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے "اسموگ ایمرجنسی” نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے تحت انتظامیہ نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں، اور صنعتی کارخانوں پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے تاکہ وہ قانون کے مطابق دھواں کم کریں۔
لاہور کی مقامی حکومت نے فضائی آلودگی کے خلاف ایک خصوصی ٹیم بھی بنائی ہے، جو فضائی معیار کی نگرانی کرے گی اور آلودگی کم کرنے کے لیے تجاویز دے گی۔
حکومتی اقدامات کے باوجود، عوام کا بھی تعاون کرنا ضروری ہے۔ فضائی آلودگی کا یہ مسئلہ سب کی مشترکہ کوشش کا تقاضا کرتا ہے، جس میں حکومت، صنعتیں، اور عوام سب شامل ہوں