سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ یہ مقدمات ٹیلی گراف کے ایکٹ کے تحت درج کیے گئے ہیں۔ گوجرانوالہ، لیہ اور ڈیرہ غازی خان میں شہریوں نے بشری بی بی کے خلاف درخواستوں میں موقف اختیار کیا ہے کہ بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان اور سعودی عرب کی خارجہ پالیسی ، اعلیٰ سطحی امور اور باہمی مفاد عامہ کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ بشری بی بی حال ہی میں 9 ماہ تک گرفتار رہنے کے بعد رہا ہوئی تھیں۔ رہائی کے کچھ دن خیبرپختونخوا میں گزارنے کے بعد، دو روز قبل اپنے ایک ویڈیو پیغام میں انھوں نے پاکستان کے دیرینہ دوست ملک سعودی عرب کے نامعلوم ذمہ داران پر سنجیدہ الزامات عائد کیے۔ بعد ازاں ان کے اس بیان کی تردید ان کی جماعت کے راہنماؤں کی طرف سے بھی کی گئی۔
بشری بی بی نے کہا تھا کہ جب عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی مرتبہ سعودی عرب گئے تھے تو وہ جوتے اتار کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تھے۔ دورے کے بعد جنرل باجوہ کو سعودی حکام نے فون کرکے کہا تھا کہ یہ تم کس کو اُٹھا لائے ہو، ہم تو یہاں سے شریعت کو ختم کر رہے ہیں اور تم یہاں شریعت کے ٹھکیداروں کو لے آئے ہو۔ واضح رہے کہ بشری بی بی کے اس بیان کی ترید جنرل باجوہ نے بھی کی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں بشری بی بی کے خلاف درخواستیں دائر کروانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ایک تو بشری بی بی کا یہ بیان حقائق کے منافی ہے دوسرا یہ بیان پاکستان اور سعودی عرب کے ملکی سطح کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا سکھ دکھ کا ساتھی اور برادر ملک ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ بشری بی بی کو ایسا بیان بالکل نہیں دینا چاہیے تھا۔
اس معاملے پر تحریک انصاف کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جمعے کو تونسہ میں ایک خطاب کے دوران پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے بشری بی بی کے اس بیان کو پاکستان دشمنی قرار دیا اور کہا کہ جو ہاتھ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں رُکاوٹ بنے گا، عوام اسے توڑ دیں گے۔ وفاقی وزراء اور سول سوسائیٹی کے نمائندوں نے بھی بشری بی بی کے اس بیان کو انتہائی غیر ضروری قرار دیا ہے۔