جعلی خبروں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے حکومت نے سخت اقدامات کیے ہیں۔ کابینہ ڈویژن کے پارلیمانی سیکریٹری ساجد مہدی نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اب تک 80,000 سے زائد سم کارڈ بلاک کیے جا چکے ہیں۔ یہ اقدام سوشل میڈیا پر جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کے باعث پیدا ہونے والے سنگین مسائل کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جھوٹی خبروں سے نمٹنے کے لیے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ترامیم کے ذریعے مقدمات کی سماعت کو تیز کیا جا سکے گا اور جعلی خبروں کے پھیلاؤ پر قابو پایا جا سکے گا۔
اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت نے ایک مشترکہ ٹاسک فورس بھی تشکیل دی ہے۔ یہ ٹاسک فورس اپنی رپورٹ وزیرِاعظم کو پیش کر چکی ہے، جس میں جھوٹی خبروں کے خطرناک اثرات اور اس کے سدِباب کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) نے بھی غیر قانونی سم کارڈز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ پہلے مرحلے میں منسوخ شدہ شناختی کارڈز پر رجسٹرڈ سمیں بلاک کی گئیں، جبکہ دوسرے مرحلے میں 2017 سے پہلے کی ایکسپائر شناختی کارڈز پر رجسٹرڈ سمیں بلاک کی جا رہی ہیں۔ تیسرے مرحلے میں وفات یافتہ افراد کے نام پر رجسٹرڈ سم کارڈز بلاک کیے جائیں گے۔
پی ٹی اے کے مطابق جعلی سم کارڈز اکثر جرائم جیسے کہ دہشت گردی اور مالی دھوکہ دہی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان سم کارڈز کی نشاندہی نادرا کے ڈیٹا کی مدد سے کی جا رہی ہے۔ صارفین کو سم بلاک کرنے سے پہلے آگاہی پیغامات بھیجے جا رہے ہیں اور انہیں شناختی کارڈ کی تجدید کا مشورہ دیا جا رہا ہے تاکہ وہ کسی قسم کی پریشانی سے بچ سکیں۔
آن لائن نگرانی بہتر بنانے کے لیے حکومت نے وی پی اینز کی رجسٹریشن بھی شروع کر دی ہے۔ ان اقدامات کا مقصد نہ صرف جھوٹی خبروں پر قابو پانا ہے بلکہ معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل کا مؤثر حل نکالنا بھی ہے۔
ساجد مہدی نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ حکومت کے یہ اقدامات جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کریں گے اور ملک میں امن و استحکام کی فضا کو مضبوط کریں گے۔