بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے مطابق ایران نے 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر لیا ہے، جو جوہری ہتھیاروں کے معیار کے قریب ہے۔ مغربی ممالک نے ایران کے اس اقدام کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں یورینیم کی اس سطح تک افزودگی صرف جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کی گئی ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے اور اسے کسی بھی صورت جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں۔
اقوام متحدہ کی سیاسی امور کی سربراہ روزمیری ڈیکارلو نے سلامتی کونسل میں خطاب کے دوران اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی طاقتوں اور ایران پر زور دیا کہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کو بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت ایران پر سخت جوہری پابندیاں عائد کی گئیں تھیں اور اس کے بدلے اقتصادی پابندیاں نرم کی گئیں۔ انہوں نے زور دیا کہ سفارت کاری ہی اس مسئلے کا بہترین حل ہے، لیکن وقت کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خطہ مزید عدم استحکام برداشت نہیں کر سکتا۔
یورپی ممالک نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران معاہدے پر واپس نہیں آتا تو وہ معطل پابندیاں دوبارہ نافذ کر دیں گے۔ اس کے جواب میں اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر، امیر سعید اراوانی نے اس دھمکی کو غیر قانونی اور غیر تعمیری قرار دیا اور کہا کہ ایران ایسے اشتعال انگیز اقدامات کا مضبوط اور متناسب جواب دے گا۔
یاد رہے کہ 2018 میں امریکا نے اس وقت کے صدر کے دور میں جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، جس کے بعد ایران نے بھی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا تھا