سعودی عرب نے باضابطہ طور پر 2034 کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ متضاد خبریں بھی گردش کر رہیں۔
جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے کہا ہے کہ اسے اپنے ہاں ہونے والے ورلڈکپ میں ہم جنس پرستوں کی تنظیم LGBT سے وابستہ لوگوں کی شرکت پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اس سلسلے میں چند روز پہلے سی این این میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کے بعد یہ خبر چل پڑی کہ سعودی عرب LGBT کو ورلڈکپ 2034 میں شمولیت کی اجازت دینے پر راضی ہوگیا ہے۔
اس خبر کے پھیلنے کی کچھ تفصیلات ہیں۔ ہیومن رائیٹس واچ کے کچھ ذمہ داران کا کہنا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے کھیلوں کے ایونٹ کو سعودی عرب میں ہونے دینا، ناقابل تصور عمل ہے۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے اسے وسیع تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ورلڈ کپ کے لیے سعودی بولی کوئی سادہ سی بات نہیں ہے، بلکہ کھیل میں سرمایہ کاری کے وسیع تر تجربے کا حصہ ہے۔
اپنے خودمختار مالی ادارے، پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) کے ذریعے، سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں گولف، باکسنگ، اسپورٹس اور فارمولا ون جیسے کھیلوں کے کامیاب منصوبوں سے منظر نامے کو تبدیل کرنے کے لیے اربوں کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری سعودی وژن 2030 کا حصہ ہے۔
حالیہ برسوں میں، سعودی عرب نے ایک منزلہ فٹ بال کلب خریدا، انگلش پریمیئر لیگ کی ٹیم نیو کیسل یونائیٹڈ اور کئی لیجنڈز کو سعودی پرو لیگ میں شامل کیا، خاص طور پر کرسٹیانو رونالڈو، کریم بینزیما اور نیمار جونیئر۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنی قوم کی طرح خود بھی فٹ بال کے کھیل کو پسند کرتے ہیں۔
اس میں کسی تعجب کی ضرورت نہیں ہے کہ سعودی عرب کے پاس ٹورنامنٹ کی کامیابی کے لیے بڑے اور شاندار منصوبے ہیں۔ اس نے 11 اسٹیڈیمز اور 185,000 نئے ہوٹلز کے کمروں کی تعمیر یا تزئین و آرائش کے علاوہ اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے۔
لیکن کچھ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2034 میں فیفا ورلڈکپ سعودی عرب میں ایک ہی قیمت پر آئے گا، وہ کیا ہے؟ وہ ہے سعودی ورلڈکپ میں LGBT کو کھلی اجازت۔
HRW کی ایک حالیہ رپورٹ، جس کا عنوان ہے "پہلے مرو میں تمہیں بعد میں ادائیگی کروں گا” میں دلیل دی گئی ہے کہ سعودی عرب اس ٹورنامنٹ کو اپنی "انسانی حقوق کی خراب ساکھ کو دھونے” کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
ہیومن رائیٹس کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو ملک میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینا ہوگی، خواتین کو مزید حقوق دینے ہوں گے، LGBT کو اجازت دینا ہوگی، پریس کو آزاد کرنا ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ۔
دریں اثنا، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فیفا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سعودی عرب کو ٹورنامنٹ دینے کا "عمل کو روک دے” جب تک کہ انسانی حقوق میں اہم اصلاحات کا اعلان نہیں کیا جاتا۔
سعودی عرب کے 2034 ورلڈ کپ کی بولی کے سربراہ، حماد البلوی نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کے حوالے سے کافی پیش رفت کی ہے۔
ہم نے ایک طویل راستہ طے کیا ہے اور ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ ہمارا اصول یہ ہے کہ ایسا معاشرہ تیار کیا جائے جو ہمارے لیے صحیح ہو۔ ہمارا سفر ورلڈ کپ کی بولی کی وجہ سے نہیں بلکہ 2016 میں شروع ہوا تھا۔
تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے لیبر رائٹس اینڈ اسپورٹ کے سربراہ سٹیو کاک برن کا کہنا ہے کہ فیفا نے دو سال پہلے قطر سے ملنے والے سبق سے نہیں سیکھا۔
کاک برن نے مزید کہا کہ ورلڈ کپ جیسا ٹورنامنٹ مثبت تبدیلی لانے کی طاقت رکھتا ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب ایسا کرنے کے ارادے حقیقی ہوں۔ کم از کم سعودی عرب میں LGBT کو ہی داخل کروا لیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اب بھی ہمارے پاس لوگوں کو بولنے کی ترغیب دینے کے لیے 10 سال ہیں، ہمیں کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ انسانی حقوق کے لیے، LGBT کے لیے سعودی قوانین میں نرمی کروانی چاہیے۔
واضح رہے کہ سی این این میں شائع ہونے والے انسانی حقوق کے مطالبات والے اس مضمون میں کہیں بھی ایسا نہیں کہا گیا کہ سعودی عرب نے LGBT کو اپنے ہاں فیفا ورلڈکپ 2034 میں شمولیت کی اجازت دے دی ہے۔
سعودی حکام میں سے بولی کے ڈائریکٹر حماد البلوی نے صرف اتنا کہا ہے کہ ہم انسانی حقوق سمیت تمام امور پر بذاتِ خود نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں کسی انسانی حقوق کی تنظیم کی تحقیقات اور ملاحظات کی ضرورت نہیں ہے۔