پنجاب سمیت ملک بھر میں گندم کی کٹائی کا عمل تیزی سے جاری ہے، مگر اس بار کاشتکار شدید بے یقینی کا شکار ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے نہ تو گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی خریداری کا کوئی باضابطہ منصوبہ سامنے آیا ہے۔ ایسے میں کسان اتحاد نے 14 اپریل سے ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔
چیئرمین کسان اتحاد خالد کھوکھر کے مطابق کاشتکاروں کو مسلسل دو سال سے اوپن مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جہاں گندم کی قیمت پیداواری لاگت سے بھی کم مل رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج گندم کی فی من لاگت 3400 روپے ہے، جبکہ مارکیٹ میں ریٹ صرف 2200 روپے تک محدود ہے۔ بڑھتی مہنگائی، کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں نے کسانوں کو اس حد تک مجبور کر دیا ہے کہ وہ زیور بیچ کر زراعت چلا رہے ہیں۔
دوسری طرف پنجاب حکومت کی نئی پالیسی کے تحت گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت کی اجازت دے دی گئی ہے، مگر گندم کی سرکاری خریداری مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے۔
ترجمان محکمہ خوراک پنجاب طلحہ ملک نے واضح کیا کہ حکومت گندم خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، اور کاشتکار اپنی مرضی سے اوپن مارکیٹ میں گندم فروخت کریں۔ اس پالیسی کو کسانوں نے ظالمانہ قرار دیتے ہوئے آٹے کے سرکاری نرخ برقرار رکھنے پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ کسان اتحاد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر گندم کی خریداری کا کوئی ارادہ نہیں، تو پھر آٹے کے نرخ بھی ڈی ریگولیٹ کیے جائیں، تاکہ کسان کو اس کی محنت کا جائز صلہ مل سکے