پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدہ صورتحال نے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کو فکرمند کر دیا ہے۔ دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین تناؤ پر عالمی برادری نے فوری ردعمل دیتے ہوئے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ممالک صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور کسی بھی قسم کی عسکری پیش رفت یا تصادم سے مکمل گریز کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے معاملات کا پرامن حل تلاش کریں۔
اس حوالے سے سب سے پہلا اور واضح ردعمل متحدہ عرب امارات کی قیادت کی جانب سے سامنے آیا۔ امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان نے نہایت دو ٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کو فوراً کشیدگی کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریق عسکری کارروائیوں سے باز رہیں اور سفارتی ذرائع کو ترجیح دیں۔ شیخ عبداللہ نے واضح کیا کہ یو اے ای ہمیشہ سے اس مؤقف کا حامی رہا ہے کہ مسائل کا حل جنگ سے نہیں، بلکہ بات چیت اور افہام و تفہیم سے نکلتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے اقدامات جو خطے کے استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہوں، ان سے مکمل اجتناب برتنا ضروری ہے۔
ان کا اصرار تھا کہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارتکاری اور پرامن مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہیں جو نہ صرف موجودہ بحران کا حل نکال سکتے ہیں بلکہ خطے کو ایک بار پھر جنگ کے دہانے سے ہٹا سکتے ہیں۔
دوسری جانب چین نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے پاکستانی حدود میں عسکری کارروائیوں پر افسوس ظاہر کیا۔ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ پیش رفت انتہائی تشویشناک ہے اور چین کی حکومت تمام تر صورتحال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ چین دونوں ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں، کشیدگی سے اجتناب کریں اور خطے میں امن کو اولین ترجیح دیں۔
اقوام متحدہ نے بھی بھارت کے اقدام پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی سطح پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کے قریب بھارت کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں نہایت تشویشناک ہیں۔
ترجمان نے زور دے کر کہا کہ دنیا موجودہ حالات میں کسی نئی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی میں اضافے سے گریز کریں اور ہر صورت میں تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
امریکی قیادت کی جانب سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی کارروائیوں کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک جلد از جلد اس بحران کو ختم کر کے کسی پرامن حل کی طرف بڑھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی انہیں بھارتی حملوں کی اطلاع ملی، انہوں نے فوری طور پر صورتحال کا تجزیہ شروع کر دیا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس معاملے پر اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو بات چیت کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے اور ایسے اقدامات سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے جو حالات کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔
روبینو نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطے کیے اور اس بات پر زور دیا کہ تمام فریق ذمہ داری اور سمجھداری سے کام لیں۔
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ واشنگٹن اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہا ہے اور دونوں ممالک کے ساتھ متعدد سطحوں پر رابطے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
ترکیہ نے بھی اس کشیدہ صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ترکیہ کے دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق ترک سفیر نے اسلام آباد میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی اور اس دوران دونوں ممالک نے علاقائی سلامتی کے معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
دونوں فریقین نے قریبی تعاون جاری رکھنے اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے رابطے مستحکم رکھنے پر اتفاق کیا۔ ترکیہ نے بھی زور دیا کہ دونوں ممالک فوری طور پر کشیدگی میں کمی لائیں اور کسی بھی عسکری اقدام سے باز رہیں۔
جاپان نے بھی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کی گئی کارروائیاں قابل مذمت ہیں۔
جاپانی حکومت کے چیف کیبنٹ سیکریٹری یوشیماسا حیاشی نے کہا کہ کشمیر میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد بھارت کا ردعمل خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے خطہ مکمل فوجی تصادم کی طرف جا سکتا ہے، جو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بنے گا۔
ان تمام عالمی بیانات اور سفارتی سرگرمیوں سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو چکی ہے کہ دنیا پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو نہایت سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور کسی صورت بھی ایسے حالات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جو جنگ کی صورت اختیار کر لیں۔
عالمی طاقتیں اور ادارے یک زبان ہو کر دونوں ممالک سے یہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ دانشمندی، تدبر اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں صورتحال کو سنبھالیں، کیونکہ ایک اور جنگ نہ صرف اس خطے کے لیے، بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک نتائج لا سکتی ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے ہر فورم پر مذاکرات اور پرامن حل پر زور دیا ہے، جبکہ عالمی برادری کی حمایت بھی اسی مؤقف کے گرد گھومتی ہے۔
اگر بھارت نے اپنے رویے میں تبدیلی نہ لائی اور یکطرفہ کارروائیاں جاری رکھیں تو یہ عالمی تنقید میں مزید اضافہ کا باعث بن سکتا ہے اور خطے کو عدم استحکام کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔
دنیا اب یہ واضح پیغام دے رہی ہے کہ ایٹمی طاقتوں کو مزید لاپرواہی کی گنجائش نہیں دی جا سکتی، اور امن ہی واحد راستہ ہے جو جنوبی ایشیا کو ایک محفوظ مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔