اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین نے حالیہ دنوں میں کمپنی کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم اعلان کیا ہے، جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اوپن اے آئی اپنی غیر منافع بخش حیثیت پر قائم رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اوپن اے آئی کا مقصد صرف مالی فائدہ کمانا نہیں بلکہ اس کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (AI) کے محفوظ اور اخلاقی استعمال کو فروغ دینا ہے۔
آلٹمین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ کمپنی کے پاس سرمایہ کاری کے مواقع ہیں اور اس پر بہت دباؤ بھی موجود ہے کہ اسے منافع بخش کاروبار میں تبدیل کیا جائے، لیکن اس کے باوجود اوپن اے آئی کے بنیادی اصول وہی رہیں گے جن کے تحت کمپنی کا قیام ہوا تھا۔
سیم آلٹمین کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب کمپنی کے چند سرمایہ کاروں کی طرف سے یہ تجویز پیش کی جا رہی تھی کہ اوپن اے آئی کو مکمل طور پر ایک تجارتی ادارے میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے مالی مفادات کو زیادہ بہتر طریقے سے پورا کر سکے۔
ان سرمایہ کاروں کا ماننا تھا کہ کمپنی کی جدید ترین ٹیکنالوجیز اور جدت کو منافع کی خاطر استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ اس کا مالی استحکام اور ترقی یقینی بنائی جا سکے۔ تاہم، آلٹمین نے اپنے اسٹاف کے لیے ایک ای میل میں اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اوپن اے آئی کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ صرف سرمایہ داروں کے مفاد کو پورا کرنا۔
ای میل میں آلٹمین نے واضح کیا کہ اوپن اے آئی کا قیام 2015 میں ایک غیر منافع بخش ادارے کے طور پر کیا گیا تھا، اور اس کی بنیاد ہی اس فلسفے پر رکھی گئی تھی کہ مصنوعی ذہانت کو عالمی سطح پر انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔
اس کے بعد 2019 میں کمپنی نے ایک نیا ماڈل اپنایا تھا، جس کے تحت اسے سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود کمپنی نے اپنی غیر منافع بخش حیثیت کو برقرار رکھا تھا۔ مائیکروسافٹ جیسی بڑی کمپنیوں نے اس وقت اوپن اے آئی میں سرمایہ کاری کی تھی، لیکن اس کی بنیادی نوعیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا تھا۔
تاہم، 2023 میں جب کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سیم آلٹمین کو اچانک برطرف کر دیا، تو اس فیصلے کے بعد کمپنی میں ایک بغاوت کی صورتحال پیدا ہوئی اور آلٹمین کو دوبارہ بحال کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد کمپنی کے اندرونی اور بیرونی ذرائع نے سرمایہ کاری کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے اور اس کے بعد دوبارہ اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ اوپن اے آئی کو منافع بخش ادارہ بنایا جائے۔
اوپن اے آئی کی صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب کمپنی کے بڑے سرمایہ کاروں، جیسے جاپان کے سافٹ بینک نے یہ شرط رکھی کہ اگر کمپنی 2025 کے آخر تک منافع بخش ادارہ نہ بن سکی تو وہ اپنی سرمایہ کاری کم کر دے گا۔ اس صورت میں سافٹ بینک کی سرمایہ کاری 30 ارب ڈالر سے کم ہو کر 20 ارب ڈالر ہو جائے گی۔
اس حوالے سے کمپنی کے اندر اور باہر دونوں ہی طرف شدید اختلافات دیکھنے کو ملے ہیں۔ جہاں ایک طرف سرمایہ کار کمپنی کے مالی مفادات پر زور دے رہے ہیں، وہیں دوسری طرف کچھ ادارے اور افراد یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ کمپنی کی اخلاقی سمت کو کسی بھی صورت تبدیل نہ کیا جائے۔
اوپن اے آئی کے شریک بانی ایلون مسک نے 2018 میں کمپنی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، لیکن وہ آج بھی اس کے نظریات کے بڑے حمایتی ہیں۔ مسک نے حالیہ دنوں میں اوپن اے آئی کے ممکنہ تجارتی ماڈل پر کڑی تنقید کی اور اس کو کمپنی کے بنیادی مقاصد کے خلاف قرار دیا۔
انہوں نے کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو عدالت میں بھی گھسیٹا تھا اور اس پر الزام عائد کیا کہ وہ اس کے فلسفے کے خلاف جا کر صرف منافع کی آرزو رکھتے ہیں۔
یہ تمام پیش رفت اوپن اے آئی کے لیے ایک سنگین لمحہ ہے، کیونکہ کمپنی کو اب اپنے کاروباری ماڈل اور اس کے اخلاقی اور سماجی اثرات کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔ سیم آلٹمین نے اپنی ای میل میں کہا تھا کہ کمپنی کا یہ نیا ماڈل اسے مزید تیزی سے ترقی کرنے کی صلاحیت فراہم کرے گا، اور اس کے ساتھ ہی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو ہر فرد تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ایک نئے دور کا آغاز ہے جہاں اوپن اے آئی اپنی اصل سوچ اور مشن پر قائم رہے گا۔