کبھی کبھی خاموشی میں وہ گرج ہوتی ہے جو توپوں کے دہانے بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ کچھ جنگیں میدانِ کارزار میں نہیں، بلکہ تدبر، وقت کے انتخاب اور حکمت عملی سے لڑی جاتی ہیں اور جیتی بھی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک خاموش مگر فیصلہ کن جنگ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران لڑی گئی، جسے تاریخ شاید "بنیانِ مرصوص” کے نام سے یاد رکھے گی۔ یہ کوئی جذباتی یا فلمی نعرہ نہیں بلکہ قرآن کی اس زبان کا حوالہ ہے جس میں مؤمنین کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہا گیا ایک ایسی دیوار جس کے ہر اینٹ باہم جُڑے ہوئے ہوں، تو کوئی طاقت اس میں دراڑ ڈالنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکے۔
بھارت کو خواب دیکھنے کی پرانی عادت ہے کبھی کشمیر پر قبضے کا خواب، کبھی پاکستان کو زیر کرنے کا خواب۔ مگر اب کا پاکستان وہ نہیں جو نوے کی دہائی میں عالمی قراردادوں کے پیچھے چھپتا تھا۔ یہ وہ پاکستان ہے جو جواب دیتا ہے، اور وہ بھی اپنے وقت، اپنے انداز اور اپنی شرائط پر۔ 6 اور 7 مئی کی وہ رات، جب بھارت نے لائن آف کنٹرول پار شہری علاقوں پر میزائل برسائے، شاید نئی دہلی نے سوچا کہ وہ ایک "نیا معمول” قائم کر لے گا۔ مگر جوابی کارروائی ایسی خاموش اور مہلک تھی کہ دشمن کا غرور زمین بوس ہو گیا۔ بغیر شور، بغیر نعرے، بس تدبیر اور صلاحیت کے ساتھ ایسا وار کیا گیا جس نے بھارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پر وقار پریس کانفرنس بھی دراصل دشمن پر ایک ذہنی حملہ تھی۔ جب انہوں نے نرم لہجے میں کہا کہ سیز فائر کی درخواست پاکستان نے نہیں، بلکہ بھارت نے کی ہے، تو یقیناً یہ جملہ دہلی کے ایوانوں میں گونجا ہوگا۔ جس ایس-400 میزائل ڈیفنس سسٹم پر بھارت کو ناز تھا، وہ خاموش پاکستانی حملے کے سامنے بےبس نکلا۔ پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے، جن میں دو یا تین رافیل طیارے بھی شامل تھے، تباہ کر کے دکھایا کہ اصل طاقت جدید ہتھیاروں میں نہیں، بلکہ جذبے، تربیت اور سچائی میں ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تاریخی کامیابی پر نہ کوئی سیاسی جلسہ ہوا، نہ میڈیا پر شور مچا۔ پاکستان نے وہی وقار دکھایا جو ایک مہذب، باوقار اور ذمہ دار قوم کا شیوہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف بھارت شرمندگی، غصے اور بے بسی کے ملے جلے جذبات میں ڈوبا رہا۔ جب سابق امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی کی بات سامنے آئی، تو جنوبی ایشیا جیسے سانس لے سکا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان نے بروقت دانشمندانہ فیصلہ نہ کیا ہوتا تو حالات ایک اور ایٹمی بحران کی طرف جا سکتے تھے۔
سابق سفیر نغمانہ ہاشمی کے مطابق، ماضی میں بھارت اکثر خود حملے کرواتا اور الزام پاکستان پر لگا دیتا، مگر اس بار پاکستان نے نہ صرف فوری مذمت کی بلکہ شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کی پیشکش بھی کی۔ پاکستان نے دنیا کو دعوت دی کہ آئیں، خود تحقیقات کریں کیونکہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بھارت چونکہ خود اس واقعے میں ملوث تھا، اس لیے کسی تحقیق کی اجازت نہ دی اور یکطرفہ طور پر پاکستان پر حملہ کر دیا۔ جواب میں پاکستان نے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے مؤثر کارروائی کی اور دنیا کو باور کروا دیا کہ وہ ایک پرامن مگر باوقار قوم ہے جو اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا جانتی ہے۔
حالیہ کشیدگی میں پاکستان نے سیاسی، سفارتی اور عسکری محاذ پر شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ اس واقعے نے نہ صرف بھارت کے عسکری دعوؤں کو بے نقاب کیا بلکہ اس کی بین الاقوامی سیاسی حیثیت کو بھی زک پہنچائی۔ بھارت کے وہ اسٹریٹیجک شراکت دار جو اسے ایشیا پیسیفک کا تھانے دار بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے، اب شکوک و شبہات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ بھارت، جدید اسلحہ رکھنے کے باوجود، نہ تو مؤثر دفاع کر سکتا ہے اور نہ ہی علاقائی قیادت کے قابل ہے۔
مزید برآں، بنگلہ دیش جیسے ممالک نے کھل کر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی اور سارک کے کسی بھی ملک نے بھارت کی حمایت نہیں کی۔ بھارت کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواب اور اکھنڈ بھارت کا منصوبہ چکناچور ہو چکا ہے۔ آج پاکستان عالمی منظرنامے پر ایک باوقار، طاقتور اور ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھرا ہے جس کی عسکری صلاحیتوں اور امن پسندی کو پوری دنیا تسلیم کر رہی ہے۔
دفاعی تجزیہ کار حارث نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ایک ذمے دار جوہری ریاست ہونے کا ثبوت دیا ہے، جب کہ بھارت نے پروپیگنڈا کی بنیاد پر پاکستان کو جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیر پر حملہ کیا اور ہمارے شہریوں کو شہید کیا، جس کے جواب میں پاکستان نے صرف دفاعی کارروائی کی لیکن اس کے باوجود دشمن کو کئی محاذوں پر بھاری نقصان پہنچایا۔ پاکستان نے بھارت کے قیمتی فوجی اور دفاعی اثاثوں کو نشانہ بنایا جن میں اُدھم پور، پٹھان کوٹ، اور سورت گڑھ کی ائیر بیسز شامل ہیں جو مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں۔
پاکستان کے JF-17 تھنڈر طیاروں نے ہائپر سونک میزائلوں کے ذریعے بھارت کے 1.5 بلین ڈالر مالیت کے S-400 ایئر ڈیفنس سسٹم کو بھی تباہ کر دیا۔ اس کے علاوہ بھارت کے رافیل، مگ 29 اور سکھوئی SU-30 MKI طیارے بھی پاکستان کی کاری ضربوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ صرف رافیل طیارے ہی تقریباً 288 ملین ڈالر فی یونٹ کی لاگت سے بھارت نے حاصل کیے تھے، جو تباہ ہو چکے ہیں۔
معاشی ماہر عابد سلہری کے مطابق، پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران بھارتی اسٹاک مارکیٹس میں شدید گراوٹ دیکھنے میں آئی، جس کے باعث محض دو دنوں میں سرمایہ کاروں کو تقریباً 83 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ان تمام تر نقصانات کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بھارت کو عسکری، سفارتی اور معاشی محاذ پر غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے تدبر، تحمل اور وقار کے ساتھ اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنی صلاحیتوں کا قائل کر لیا ہے۔