سعودی عرب میں رہنے والے ہزاروں امریکی شہری صرف روزگار یا تعلیم کے لیے نہیں آئے، بلکہ وہ یہاں ایک ایسا ماحول پا چکے ہیں جو انہیں گھر سے دور ایک نیا گھر فراہم کرتا ہے۔ دارالحکومت ریاض سے لے کر ساحلی علاقوں تک، یہ امریکی شہری سعودی معاشرت، ترقی اور مہمان نوازی سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ خود کو اب مملکت کا حصہ محسوس کرتے ہیں۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے چار امریکیوں نے اپنی کہانی بیان کی، جو سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان گہرے، پائیدار اور بڑھتے ہوئے تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔
ڈی کیو لیونگ میگزین کی شریک بانی، ماریہ کومیٹی، ریاض میں قیام پذیر ہیں۔ وہ کہتی ہیں: تحفظ، معاشی مواقع اور معاشرت کی مضبوط اخلاقی ساخت میرے لیے ان بڑے فوائد میں سے ہیں جو سعودی عرب نے مجھے دیے۔ انہوں نے ایک سعودی شہری سے شادی کی ہے اور کہتی ہیں کہ انہیں دونوں ممالک کے درمیان مضبوط رشتے پر فخر ہے۔ ان کے مطابق سعودی عرب میں سستی اور معیاری صحت کی سہولیات انہیں بے حد متاثر کرتی ہیں۔
ہنا نیمک، جو 2015 میں سعودی عرب آئیں، کہتی ہیں کہ جب وہ یہاں آئیں تو خواتین کی ملازمتوں میں شراکت 20 فیصد سے بھی کم تھی، اور وہ اکثر میٹنگز میں واحد خاتون ہوا کرتی تھیں۔ آج، وہ خود اس تبدیلی کا حصہ ہیں جو ویژن 2030 کے تحت آئی اب خواتین کی شراکت 36 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔وہ مزید کہتی ہیں کہ سعودی ویژن 2030 کی عملی شکل دیکھنا میرے لیے ایک جذباتی تجربہ رہا ہے ۔
سمیر شمس، جو گزشتہ 15 برس سے ریاض میں مقیم ہیں، بتاتے ہیں کہ انہوں نے یہاں بھرپور ثقافت، محفوظ ماحول، جدید انفراسٹرکچر، اور کم لاگت میں معیاری طرزِ زندگی کا تجربہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں کیریئر کے بے پناہ مواقع موجود ہیں، خاص طور پر اُن شعبوں میں جو تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جیسے مصنوعی ذہانت (AI) اور قابل تجدید توانائی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات اب تیل اور دفاع سے آگے بڑھ کر جدید ٹیکنالوجی کی شراکت داری میں ڈھل چکے ہیں۔
ڈینیئل ٹیلبوٹ، کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں واٹر ڈی سیلینیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اپنی تعلیم 2024 میں شروع کی اور اب سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہوں۔ یہ وہ ملک ہے جسے میں اور میری فیملی نے زندگی کے اہم سالوں کے لیے چنا ہے۔ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ سعودی ترقی کے سفر کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔
یہ امریکی شہری نہ صرف سعودی عرب کی سحر انگیز تبدیلیوں، ویژن 2030 کی کامیابیوں اور مقامی مہمان نوازی سے متاثر ہیں، بلکہ وہ مملکت میں زندگی کو ایک باوقار اور بامقصد تجربہ سمجھتے ہیں۔ ان کی کہانی صرف ایک ثقافتی ہم آہنگی کی نہیں، بلکہ ایک عالمی تعلق کی نئی تعریف کی کہانی ہےجس میں محبت، مواقع، اور احترام سب شامل ہیں۔