اسلام آباد:پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار اور حال ہی میں برطانیہ کے وزیر خارجہ مقرر ہونے والے ڈیوڈ لَمی کے درمیان دفتر خارجہ اسلام آباد میں اہم اور دوررس نتائج کی حامل ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے پاک-بھارت سیز فائر، خطے کی حالیہ جیو پولیٹیکل پیشرفت اور دوطرفہ تعلقات کے متعدد پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لَمی، جن کا یہ پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ ہے، دفتر خارجہ پہنچے تو اسحٰق ڈار نے روایتی گرمجوشی اور سفارتی آداب کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیا۔
ملاقات میں وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے قیام کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے، پاک-بھارت کشیدگی میں کمی اور سیز فائر معاہدے کی بحالی کے لیے برطانیہ کے کردار کو "تعمیری اور متوازن” قرار دیا۔
ہم خطے میں پائیدار امن کے خواہاں ہیں، اور اس سلسلے میں برطانیہ کی مصالحتی کوششیں اور سفارتی حمایت انتہائی اہمیت رکھتی ہیں،اسحٰق ڈار،ڈیوڈ لَمی نے بھی اس موقع پر اس بات کا اعادہ کیا کہ برطانیہ جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کا حامی ہے، اور کسی بھی قسم کی کشیدگی میں کمی کے لیے تمام ممکنہ سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔
ملاقات میں پاکستان-برطانیہ دوطرفہ تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید مستحکم بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ خاص طور پر تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، اور موسمیاتی تبدیلی جیسے شعبوں میں اشتراکِ عمل کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔
اسحٰق ڈار نے برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو دونوں ممالک کے درمیان "پُل” قرار دیتے ہوئے ان کے کردار کو سراہا، جبکہ ڈیوڈ لَمی نے پاکستان کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری کے عزم کا اظہار کیا۔
اعلیٰ سطحی ملاقات کے بعد وفود کی سطح پر بھی مذاکرات ہوئے، جن میں مختلف سرکاری محکموں اور اداروں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ یہ مذاکرات نہ صرف موجودہ تعاون کو مزید فعال بنانے کے لیے اہم تھے بلکہ مستقبل کی نئی راہیں بھی متعین کرتے نظر آئے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ لَمی کا دورہ پاکستان، برطانوی خارجہ پالیسی میں جنوبی ایشیا کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسری جانب، اسحٰق ڈار کی وزارتِ خارجہ میں فعال اور متحرک سفارتکاری پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر فعال موجودگی کی غماز ہے۔
اسلام آباد میں ہونے والی یہ ملاقات نہ صرف دو طرفہ تعلقات کی گہرائی کو اجاگر کرتی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں امن، تجارت اور سفارتی مفاہمت کے نئے دریچے بھی کھولتی ہے۔ بلاشبہ، یہ ایک سفارتی کامیابی تھی جو مستقبل کے لیے مثبت پیش رفت کی نوید ہے۔