نئی دہلی کی راہداریوں میں ایک چونکا دینے والی گونج سنائی دی، جب بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے پہلی بار عوامی سطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستان نے کسی بھی قسم کے ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کیے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ بندی کے دعوؤں کو سرے سے مسترد کر دیا اور اسے توجہ حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق، خارجہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں وکرم مسری نے واضح کیا کہ نہ تو جنگ بندی میں کسی تیسرے ملک کا کردار تھا اور نہ ہی مذاکرات میں کوئی غیر ملکی مداخلت ہوئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنگ بندی کی پیشکش پاکستان کی طرف سے آئی اور یہ فیصلہ مکمل طورپردوطرفہ سطح پر ہوا۔
جب کمیٹی کے ارکان نے سوالات کی بوچھاڑ کی،خصوصاً یہ کہ بھارت نے ٹرمپ کے بار بار ثالثی کے دعوؤں پر کھل کر اعتراض کیوں نہیں کیاتو مسری نے خاموشی کوترجیح دی، حتیٰ کہ ایک رکن نے نشاندہی کی کہ ٹرمپ کم از کم سات بار اس ‘کردار’ کا دعویٰ کر چکے ہیں، لیکن بھارت مسلسل خاموش رہا۔
وکرم مسری نے ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا،ٹرمپ نے اپنے بیانات سوشل میڈیاپردیے، نہ کہ کسی رسمی سفارتی پلیٹ فارم پر، لہٰذا بھارت کو سرکاری طور پر جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایٹمی طاقت کا خارجہ پالیسی میں اتنا خاموش رہنا،اس کی سفارتی کمزوری کی علامت نہیں؟
پاکستان کی طرف سے ایٹمی ہتھیار استعمال کیےجانے کی افواہیں تو خوب پھیلیں، مگر خود بھارتی سیکریٹری خارجہ نے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دےدیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جھڑپیں مکمل طور پر روایتی نوعیت کی تھیں اور پاکستان نے کسی بھی قسم کے جوہری ہتھیاراستعمال نہیں کیے۔
یہ بیانیہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے ماضی میں دیے گئے بیانات سے مختلف ہے، جنہوں نے ’مکمل جنگ‘ کی وارننگ دی تھی۔ تاہم، پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے بھی بعد ازاں واضح کر دیا کہ جوہری ہتھیار کبھی بھی حکومت کا آپشن نہیں تھے۔
پاکستان ایئر فورس کی جانب سے چھ بھارتی لڑاکا طیارے مار گرانے کے دعوے پر بھی مسری نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، اور قومی سلامتی کا حوالہ دے کر خاموشی اختیار کی۔ یہ خاموشی بھی کئی سوالات کو جنم دے گئی۔
پاکستان سے معمول کے تعلقات؟ قریب مستقبل میں ممکن نہیں ہیں۔ایک اور چونکا دینے والا انکشاف وکرم مسری نے پاکستان سے قریب مستقبل میں معمول کے تعلقات بحال ہونے کے امکان کو بھی مسترد کر دیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی خلیج بدستور قائم ہے
بھارت کی خارجہ پالیسی کے اندرونی تناقضات اور امریکی بیانیے پر خاموشی نے ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ وکرم مسری کا یہ بیان صرف سفارتی محاذ پر ہلچل نہیں مچائے گا، بلکہ خطے میں طاقت کے توازن اور عالمی ثالثی کردار پر بھی نئے سوالات اٹھائے گا۔
یہ خبر نہ صرف پاکستان کے لیے ایک سفارتی فتح ہو سکتی ہے بلکہ بھارت کے اندرونی پالیسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز بھی کرے گی۔