یورپ میں اسرائیل کے خلاف سفارتی دباؤ میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جہاں مختلف ممالک اور ادارے غزہ میں جاری جنگی کارروائیوں پر نہ صرف تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ اب ٹھوس اقدامات کی جانب بھی بڑھ رہے ہیں۔
یورپی یونین کے حلقوں میں اب یہ آواز گونجنے لگی ہے کہ اگر اسرائیل نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بند نہ کیں تو اس کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر نظرثانی ضروری ہو جائے گی۔
یورپی یونین کی نائب صدر کار کاجا کالاس کے مطابق، رکن ممالک کی اکثریت اب اس بات پر متفق ہے کہ غزہ کی صورتحال ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ چکی ہے اور اب وقت آ چکا ہے کہ امدادی رسائی کے لیے عملی قدم اٹھایا جائے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے محدود امدادی اجازت کو تسلیم کرتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ امداد موجودہ بحران کے سامنے کچھ بھی نہیں — یہ ایسے ہے جیسے جلتے ہوئے جنگل پر پانی کی ایک بوند ڈالی جائے۔
یورپ میں صرف یورپی یونین ہی نہیں بلکہ انفرادی ریاستیں بھی اسرائیل کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ سویڈن کی وزیر خارجہ، ماریہ مالمر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اُن کا ملک اسرائیلی وزراء پر پابندیاں لگوانے کے لیے یورپی یونین کے اندر لابنگ کرے گا، کیونکہ اُن کے بقول غزہ میں عام شہریوں کے حالات بہتر ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
اسی طرح برطانیہ کی حکومت بھی اب ایک واضح اور سخت مؤقف اختیار کر چکی ہے۔ حالیہ بیانات کے مطابق، برطانوی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ جاری آزاد تجارتی مذاکرات کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا ہے اور اسرائیلی سفیر کو طلب کر کے واضح پیغام دیا ہے کہ مغربی کنارے میں آبادکاروں کے خلاف جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں، وہ اب تک کا سب سے سخت اقدام ہے جو غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران نہایت سخت لب و لہجہ اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے جنگ کو طول دینا، انسانی امداد کو روکنا، اور بین الاقوامی شراکت داروں کی تشویش کو نظرانداز کرنا ایسے اقدامات ہیں جن کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کے بقول، اسرائیل کو یہ روش ترک کرنی ہو گی۔
تاہم، اسرائیلی حکومت کی جانب سے ان تمام تر دباؤ کے باوجود، ایک ضدی اور سخت گیر مؤقف سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان اروین مارموسٹین کا کہنا تھا کہ بیرونی دنیا کا کوئی بھی دباؤ اسرائیل کو اپنی سیکیورٹی، دفاع اور وجود کے تحفظ سے روک نہیں سکتا۔ ان کا اصرار ہے کہ اسرائیل اپنی سلامتی کے لیے جس اقدام کو ضروری سمجھے گا، وہ اسے جاری رکھے گا۔
دوسری جانب انسانی بحران بدستور شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ غزہ میں امدادی کارکنوں کے مطابق، منگل کے روز ہونے والے حملوں میں درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی بتائی جا رہی ہے۔
ایسے میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے بھی مسلسل متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر فوری طور پر امداد کی ترسیل میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا تو قحط جیسی صورتحال جنم لے سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ منگل کو 93 ٹرک غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی، جن میں بنیادی ضروریات کا سامان جیسے آٹا، بچوں کی خوراک، دوائیں اور طبی آلات شامل تھے۔
تاہم، اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے سربراہ ٹام فلیچر نے اس امداد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بحران کے سامنے یہ کوششیں بہت کم ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر آئندہ 48 گھنٹوں کے اندر بھرپور امداد غزہ نہ پہنچی تو تقریباً 14 ہزار نوزائیدہ بچوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
یہ تمام صورتحال اب ایک ایسے سنگین موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں عالمی برادری کی خاموشی کو مجرمانہ غفلت تصور کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اگرچہ منگل کو تھوڑی بہت امداد کے داخلے کی اجازت دی گئی، لیکن جس رفتار اور پیمانے پر انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، اُس کے پیش نظر فوری اور غیر مشروط انسانی رسائی ناگزیر ہو چکی ہے۔
عالمی سیاست کے اس مرحلے پر اسرائیل کے خلاف یورپ کے اندر جو نیا بیانیہ جنم لے رہا ہے، وہ اس حقیقت کو تسلیم کر رہا ہے کہ عسکری حکمت عملی کے ذریعے دیرپا امن حاصل نہیں ہو سکتا، بلکہ انسانی ہمدردی، سفارتی دباؤ، اور اجتماعی ضمیر کی بیداری سے ہی اس بربادی کو روکا جا سکتا ہے جو اس وقت غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔