بیجنگ میں حالیہ دنوں ہونے والی ایک نہایت اہم سفارتی ملاقات میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کیا، جس میں خطے کے امن، ترقی، اور رابطوں کے فروغ کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر غور کیا گیا۔
اس سہ فریقی اجلاس میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی اور افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے شرکت کی۔ اجلاس کو مستقبل کی سفارتی سمت کے تعین کے حوالے سے ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
ملاقات کے دوران تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے خاص طور پر افغانستان، پاکستان اور چین کے مابین سہ فریقی روابط کو مزید مؤثر بنانے، باہمی مفاہمت کو مضبوط کرنے، اور خطے میں طویل مدتی استحکام لانے پر زور دیا۔
اس اجلاس کا ایک بڑا مقصد سہ فریقی مذاکرات کے چھٹے دور کی تیاریوں کا جائزہ لینا اور اس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دینا تھا۔
افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گفتگو کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ افغانستان، چین اور پاکستان کے درمیان سیاسی اور معاشی تعلقات میں نہ صرف تسلسل قائم رہے گا بلکہ مستقبل میں یہ تعلقات مزید مضبوط اور وسیع ہوں گے۔
اُنہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کے لیے چین اور پاکستان دونوں نہایت اہم شراکت دار ہیں، اور یہ تعاون نہ صرف دوطرفہ مفادات کے لیے بلکہ پورے خطے کی فلاح کے لیے بھی ضروری ہے۔
چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے ساتھ ایسے تعلقات چاہتے ہیں جو برابری، ہمسائیگی کے اصولوں، اور باہمی احترام پر مبنی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی تعمیر نو اور استحکام میں چین اور پاکستان کا تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اور اسی وجہ سے وہ سہ فریقی سطح پر مشترکہ اقدامات کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔
ملاقات کے اختتام پر تینوں ممالک اس بات پر متفق نظر آئے کہ باہمی تجارت کو بڑھانے اور سرحد پار ٹرانزٹ سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات کیے جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے انفراسٹرکچر، نقل و حمل، اور کسٹمز کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق ہوا۔
پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے مطابق اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا کہ چین کے عالمی منصوبے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو” (BRI) کے تحت تینوں ممالک باہمی ترقی کے لیے تعاون کو مزید گہرا کریں گے، جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو افغانستان تک وسعت دینے کے امکانات پر بھی عملی پیش رفت کی جائے گی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اجلاس میں ایک اور نمایاں نکتہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر زور دینا تھا۔ تینوں فریقین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ دہشت گردی پورے خطے کے امن و امان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، اور اس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون اور انٹیلیجنس شیئرنگ کو لازمی قرار دیا گیا۔
ملاقات کا ایک اہم اور عملی نتیجہ یہ بھی تھا کہ تینوں ممالک نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات کا اگلا یعنی چھٹا دور جلد کابل میں منعقد کیا جائے گا۔
اس حوالے سے متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ تاریخ باہمی مشاورت کے بعد طے کی جائے گی تاکہ تمام فریقین کی شرکت ممکن ہو۔
یہ پیش رفت نہ صرف تینوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کی جانب قدم ہے بلکہ یہ علاقائی تعاون، ترقی اور امن کی جانب ایک نئی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ان اہداف پر سنجیدگی سے عمل کیا گیا تو نہ صرف افغانستان بلکہ پورے جنوبی و وسطی ایشیائی خطے میں دیرپا امن، استحکام اور خوشحالی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔