ڈھاکہ میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے حال ہی میں بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ کا ایک سنگِ میل عبور کرتے ہوئے شیخ حسینہ کی سابق حکومت سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ پولیس افسران کے خلاف پہلی بار انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔
چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے اعلان کیا کہ یہ مقدمہ گذشتہ برس طلبہ تحریک کے دوران ہونے والے پُرتشدد واقعات میں چھ مظاہرین کی ہلاکت سے متعلق ہے، جن کی جانیں 5 اگست 2024 کو اُس وقت لی گئیں جب ملک بھر میں بغاوت کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی اور عوامی غیض و غضب حسینہ حکومت کے خلاف آتش فشاں کی مانند پھٹ پڑا تھا۔
یہی وہ دن تھا جب مظاہرین نے بنگلہ دیشی وزیرِاعظم کی رہائش گاہ کا محاصرہ کر لیا، جس کے بعد شیخ حسینہ نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک چھوڑ دیا اور مبینہ طور پر بھارت میں پناہ لے لی۔
اس واقعے کے بعد ان پر ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال اور شہریوں کے خلاف مہلک اقدامات کے الزامات عائد کیے گئے، مگر وہ تاحال کسی بھی عدالتی کارروائی میں شامل ہونے سے انکاری ہیں۔
عدالت نے جن آٹھ افسران پر فردِ جرم عائد کی ہے، ان میں ڈھاکہ پولیس کے سابق کمشنر حبیب الرحمٰن کا نام بھی شامل ہے جو اس وقت مفرور ہیں۔ چار اہلکار زیرِ حراست ہیں، جبکہ چار کے خلاف ان کی عدم موجودگی میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ان افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے براہِ راست احکامات دیے، کچھ نے خود مظاہرین پر حملوں میں شرکت کی، اور کچھ پر اعلیٰ کمانڈ کی سطح پر ظلم کو منظم کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
چیف پراسیکیوٹر کے مطابق، ریاستی اداروں کے یہ افسران اُس وحشیانہ کریک ڈاؤن کا حصہ تھے جس کا مقصد طلبہ کی قیادت میں شروع ہونے والی تحریک کو کچلنا تھا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، جولائی اور اگست 2024 کے درمیانی عرصے میں شیخ حسینہ کی حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کی گئی پرتشدد کارروائیوں میں تقریباً 1400 افراد جاں بحق ہوئے۔
تاج الاسلام نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں، جن میں مظاہرین پر تشدد کی ویڈیو کلپس اور شیخ حسینہ کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگز شامل ہیں۔
ان ریکارڈنگز میں وہ سکیورٹی فورسز کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال، حتیٰ کہ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے احکامات دیتی سنی جا سکتی ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہی انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل دراصل خود شیخ حسینہ نے 2009 میں قائم کیا تھا، جس کا مقصد 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کرنا تھا۔ تاہم، بعد ازاں اسی عدالت کو ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیے جانے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اب جبکہ خود حسینہ کی حکومت کے افسران اس عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں، تو یہ بنگلہ دیش کے عدالتی اور سیاسی منظرنامے میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ مقدمہ ان متعدد مطالبات میں سے ایک کا نتیجہ ہے جو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کیے جا رہے تھے، تاکہ سابق حکومتی عہدیداروں کو احتساب کے عمل سے گزارا جائے۔
عبوری حکومت نے اس تناظر میں وعدہ کیا ہے کہ ملک میں جون 2026 سے پہلے انتخابات کروائے جائیں گے، اور یہ مقدمات ان کوششوں کا حصہ ہیں کہ ملک میں سیاسی عدل اور عوامی اعتماد بحال ہو سکے۔
چیف پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ استغاثہ مکمل یقین رکھتا ہے کہ ان کے پاس موجود شواہد نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق انسانیت کے خلاف جرائم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اگر یہ مقدمہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو یہ نہ صرف انصاف کی فراہمی کی جانب ایک قدم ہو گا بلکہ یہ پیغام بھی دے گا کہ ریاستی طاقت کے غلط استعمال پر بالآخر قانون کا ہاتھ پڑ سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔