ڈیجیٹل دنیا میں جہاں سہولتوں کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، وہیں خطرات بھی تیزی سے جنم لے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں منظرِ عام پر آنے والا ایک بڑا سائبر سیکیورٹی بحران دنیا بھر کے صارفین کے لیے تشویش کا باعث بن گیا ہے، خاص طور پر پاکستانی صارفین کے لیے جو پہلے ہی ڈیجیٹل سیکیورٹی کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
بین الاقوامی سائبر ماہرین کے مطابق، ایک غیر محفوظ ڈیٹا بیس انٹرنیٹ پر طویل عرصے تک دستیاب رہا جس میں کروڑوں افراد کی نجی اور حساس معلومات بغیر کسی حفاظتی نظام کے موجود تھیں۔
یہ ڈیٹا ’انفوسٹیالر‘ نامی ایک خطرناک مالویئر کے ذریعے اکٹھا کیا گیا، جو صارفین کے کمپیوٹرز، موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز سے حساس معلومات چوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس مالویئر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ پسِ منظر میں خاموشی سے کام کرتا ہے اور متاثرہ صارف کو اس وقت تک پتہ نہیں چلتا جب تک اس کا ڈیٹا ہیکرز کے ہتھے چڑھ نہیں جاتا۔
انفوسٹیالر جیسے مالویئر زیادہ تر ان ویب سائٹس یا فری سافٹ ویئرز کے ذریعے پھیلتے ہیں جنہیں صارفین بغیر سوچے سمجھے ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں۔ یہ وائرس متاثرہ کمپیوٹر سے پاسورڈز، ای میل لاگ اِنز، بینک کی معلومات، براؤزر ہسٹری، کریڈٹ کارڈ ڈیٹیلز، کوکیز اور حتیٰ کہ ون ٹائم پاس کوڈز تک چرا لیتا ہے۔
حیرت انگیز اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اس واقعے میں چوری ہونے والا ڈیٹا ایک اوپن ڈیٹا بیس میں عوامی سطح پر دستیاب تھا۔
اس ڈیٹا بیس میں موجود معلومات 26 کروڑ سے زائد اکاؤنٹس پر مشتمل تھیں۔ یعنی کسی بھی شخص کے لیے ان معلومات تک رسائی ممکن تھی، چاہے وہ سائبر مجرم ہو یا کوئی عام صارف۔
اس طرح کے انکشاف نے سائبر سیکیورٹی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے کیونکہ ایسی معلومات کو استعمال کر کے نہ صرف آن لائن فراڈ کیے جا سکتے ہیں بلکہ شناخت کی چوری، بینکنگ فراڈ، اور دیگر سنگین جرائم بھی کیے جا سکتے ہیں۔
متاثرہ ڈیٹا میں گوگل، فیس بک، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ، ٹک ٹاک، ایپل، مائیکروسافٹ، اور دیگر مشہور عالمی سروسز کے صارفین کی معلومات شامل تھیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں استعمال ہونے والے کئی بینکنگ ایپس، ہسپتالوں کے ریکارڈز، سرکاری اداروں کی ویب سائٹس، تعلیمی اداروں کے پورٹلز، اور عام صارفین کی روزمرہ ایپس بھی اس کا حصہ بنیں۔ ایسے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے لاکھوں صارفین اس حملے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس واقعے پر ماہرین نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے تمام اکاؤنٹس کے پاسورڈز تبدیل کریں، خاص طور پر وہ جنہیں ایک سے زیادہ جگہوں پر استعمال کیا گیا ہو۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایک ہی پاسورڈ کو مختلف ویب سائٹس پر استعمال کرنا سب سے بڑی غلطی ہے کیونکہ اگر ایک جگہ ڈیٹا لیک ہو جائے تو وہی پاسورڈ ہیکر دوسری جگہ بھی آزما کر آسانی سے رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
پاکستان میں سائبر سیکیورٹی کے ماہر ہارون بلوچ نے کہا کہ عام صارفین اب بھی سائبر حملوں کو سنجیدہ نہیں لیتے، حالانکہ یہ معاملہ اب صرف آن لائن سرگرمیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ہماری مالیاتی، طبی، تعلیمی اور نجی زندگی کا تحفظ بھی اسی پر منحصر ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ادارے بھی غفلت برتتے ہیں اور آج بھی کئی ویب سائٹس پر بنیادی حفاظتی اقدامات جیسے HTTPS انکرپشن تک موجود نہیں، جو کہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں بنیادی ضرورت ہے۔
پاکستان کی نیشنل سائبر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم (PakCERT) نے بھی عوام اور اداروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس سنگین صورت حال کو نظرانداز نہ کریں اور فوری اقدامات اٹھائیں۔
انہوں نے صارفین کو ہدایت دی ہے کہ وہ پاسورڈ مینیجرز کا استعمال کریں تاکہ ہر ویب سائٹ کے لیے ایک الگ اور مضبوط پاسورڈ استعمال کیا جا سکے۔ اسی طرح دو مرحلوں پر مشتمل لاگ اِن سسٹم یعنی ٹو فیکٹر آتھنٹیکیشن کو فعال کرنا بھی ناگزیر ہے تاکہ صرف پاسورڈ چوری ہو جانے کی صورت میں بھی اکاؤنٹ تک رسائی ممکن نہ ہو سکے۔
صارفین کو مزید مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک ای میل، لنک یا فری سافٹ ویئر سے مکمل پرہیز کریں کیونکہ یہ ہیکنگ کا آسان ترین ذریعہ ہوتے ہیں۔
سسٹمز میں اینٹی وائرس اور مالویئر اسکینر کی موجودگی کو یقینی بنائیں اور اگر ممکن ہو تو سائبر سیکیورٹی کی بنیادی تربیت حاصل کریں تاکہ کسی بھی خطرے سے پہلے آگاہی حاصل کی جا سکے۔
اس وقت صارفین کے لیے کچھ ایسی ویب سائٹس دستیاب ہیں جہاں وہ اپنے ای میل ایڈریس یا فون نمبر درج کر کے یہ جان سکتے ہیں کہ آیا ان کی معلومات بھی کسی ڈیٹا لیک کا حصہ بنی ہیں یا نہیں۔
"Have I Been Pwned” جیسی ویب سائٹس اس حوالے سے قابل بھروسا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں، جہاں سے ابتدائی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
یہ واقعہ صرف ایک معمولی ڈیٹا لیک نہیں بلکہ ایک لمحہ فکریہ ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری ڈیجیٹل شناخت اور آن لائن سرگرمیاں کس قدر غیر محفوظ ہو سکتی ہیں اگر ہم خود حفاظتی تدابیر اختیار نہ کریں۔
اس وقت جب دنیا کے تمام اہم معاملات ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل ہو رہے ہیں، ہر شخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ڈیٹا کا محافظ خود بنے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں ڈیجیٹل خواندگی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اس قسم کے واقعات عوام میں آگاہی بیدار کرنے کا سبب بن سکتے ہیں بشرطیکہ میڈیا، ادارے، اور حکومت اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف سہولت کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال نہ کریں بلکہ اس کے نقصانات کو بھی سنجیدگی سے سمجھیں اور ہر ممکن حفاظتی قدم اٹھائیں۔ کیونکہ ڈیجیٹل دنیا میں ایک چھوٹی سی غلطی آپ کی مکمل نجی زندگی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر سکتی ہے۔