بین الاقوامی شہرت یافتہ برطانوی صحافی پیئرز مورگن نے اسرائیلی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ وہ عالمی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے تاکہ دنیا کو اصل حقائق معلوم ہو سکیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل واقعی سچ پر قائم ہے تو اسے غیرجانبدار صحافتی جائزے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
پیئرز مورگن، جو عرب میڈیا سمٹ کے دوران دبئی میں گفتگو کر رہے تھے، نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایک جمہوری ریاست ہونے کا دعویٰ کرنے والا ملک کیسے آزاد صحافت کو پابند سلاسل کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل دانستہ طور پر بین الاقوامی میڈیا کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے تاکہ جو معلومات وہ خود دنیا کو فراہم کر رہا ہے، اُن پر کسی بھی طرح کا تنقیدی سوال نہ اٹھایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا: جب صحافیوں کو میدانِ عمل میں جانے ہی نہیں دیا جائے گا، تو دنیا کیسے جان سکے گی کہ حقیقت کیا ہے؟ اگر اسرائیل کا مؤقف سچ پر مبنی ہے، تو پھر اسے آزاد میڈیا سے ڈر کیسا؟
پیئرز مورگن نے اس گفتگو کے دوران یہ بھی اعتراف کیا کہ ان کا ذاتی مؤقف وقت کے ساتھ بدلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ان کا خیال تھا کہ 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ "جواب کس حد تک مناسب ہوتا ہے؟” ان کے بقول، حالیہ مہینوں میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی شدید بمباری اور غزہ کی مکمل ناکہ بندی نے تمام اخلاقی اور انسانی حدیں عبور کر لی ہیں۔
پیئرز مورگن نے اپنے مؤقف میں تبدیلی کا سہرا ایک معروف مصری مزاح نگار باسم یوسف کو دیا جنہوں نے انہیں فلسطین اور اسرائیل کے مابین 75 سالہ پرانے تنازع کا تاریخی تناظر نہایت مؤثر انداز میں سمجھایا۔ اس انٹرویو نے پیئرز مورگن کی رائے پر گہرا اثر ڈالا، اور یہی وجہ ہے کہ ان کی سوچ میں ایک واضح تبدیلی آئی۔
انہوں نے کہا: میرا کام ایک صحافی کا ہے، کسی ایک فریق کا وکیل بننا نہیں۔ مجھے سچ تک پہنچنا ہے، سوال اٹھانے ہیں، اور دونوں اطراف کو اپنے مؤقف کے اظہار کا پورا موقع دینا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیا کسی نتیجے پر پہنچے، لیکن سچائی کی بنیاد پر، تعصب کی نہیں۔
پیئرز مورگن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان کے پروگرامز میں ہمیشہ فلسطینی مؤقف رکھنے والے مہمانوں کو جگہ دی گئی، اور کسی بھی دوسرے مغربی شو کے مقابلے میں فلسطینی نمائندگی اُن کے شو میں زیادہ رہی۔
اُن کا یہ انٹرویو جس میں انہوں نے باسم یوسف کی میزبانی کی، سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور اسے 2 کروڑ 30 لاکھ سے زائد بار دیکھا گیا۔
اختتام پر انہوں نے واضح کیا کہ وہ نہ تو اپنے پرانے مؤقف پر اندھا دھند قائم ہیں اور نہ ہی کسی فریق کی وکالت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: "میرا فرض ہے کہ میں غیرجانبدار رہوں، طاقت کے ہر مرکز کو جوابدہ بناؤں، اور یہ یقینی بناؤں کہ دنیا کو اصل کہانی کا پتا چل سکے۔