واشنگٹن : امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیو نے اعلان کیا ہے کہ چین اور ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے ویزے کے دروازے مزید سخت کردیے جائیں گے۔ خاص طور پر ان چینی طلبا کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کا تعلق چینی کمیونسٹ پارٹی سے ہے یا وہ امریکہ میں اہم سائنسی و ٹیکنالوجیکل شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
مارکو روبیو نے کہا کہ قومی سلامتی کے پیش نظر ایسے تمام طلبا کے ویزے منسوخ کیے جائیں گے جو امریکی ٹیکنالوجی اور تعلیمی نظام کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ ساتھ ہی، امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ویزا درخواستوں کے معیار میں تبدیلی کی جا رہی ہے، اور آئندہ چین اور ہانگ کانگ سے آنے والے ہر امیدوار کی سخت جانچ پڑتال کی جائے گی۔
یہ سب کچھ اُس فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے تمام امریکی سفارت خانوں کو ہدایت دی کہ طلبا کے ویزوں کی نئی اپائنٹمنٹس بند کر دی جائیں۔ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا ہے تاکہ درخواست دہندگان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی مکمل چھان بین کی جا سکے۔ تاہم جن افراد کی اپائنٹمنٹس پہلے سے طے ہیں، وہ معمول کے مطابق جاری رہیں گی۔
اس کے علاوہ، ٹرمپ انتظامیہ نے ایک اور سخت قدم اٹھاتے ہوئے امریکی کمپنیوں کو چین کو تکنیکی مصنوعات کی فروخت سے بھی روک دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سب اقدامات امریکہ اور چین کے درمیان جاری سرد جنگ کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں، جو اب صرف تجارت یا سفارت کاری تک محدود نہیں رہی بلکہ تعلیمی اداروں اور ڈیجیٹل دنیا تک پہنچ چکی ہے۔
ماہرین کی رائےمیں یہ اقدام تعلیمی تبادلے کو نقصان پہنچا سکتا ہے
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے امریکہ میں تعلیمی میدان میں آنے والی جدت متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ چینی طلبا کی بڑی تعداد امریکی یونیورسٹیوں میں تحقیق و تعلیم کے اہم ستون بن چکی ہے۔
یہ صورتحال عالمی سطح پر تعلیم، تحقیق، اور ٹیکنالوجی میں طاقت کے توازن کو ایک نئی سمت میں دھکیل سکتی ہے اور شاید ایک "ڈیجیٹل جنگ” کا آغاز بھی۔