اسلام آباد/سنگاپور : جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی وقتی طور پر ختم ہو گئی ہے، تاہم پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد مرزا نے خبردار کیا ہے کہ اگر خطے میں سنجیدہ سفارت کاری نہ ہوئی تو مستقبل میں یہ بحران ایک بڑی جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ انہوں نے سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ سیکیورٹی فورم کے موقع پر برطانوی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ہم اگرچہ 22 اپریل سے پہلے والی فوجی پوزیشنز کی طرف واپس آ چکے ہیں، مگر یہ بحران اسٹریٹجک غلط فہمیوں کی خطرناکی کو بے نقاب کرتا ہے، جو کسی بھی وقت تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔
تنازعہ کا آغاز اس وقت ہوا جب بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے بعد نئی دہلی نے فوری طور پر پاکستان پر الزام عائد کیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف سفارتی اور تجارتی اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا، پاکستانی سفارتکاروں پر پابندیاں عائد کیں اور یہاں تک کہ علاج کے لیے آنے والے بچوں کو بھی واپس بھیج دیا۔ پاکستان نے بھی سخت ردعمل دیتے ہوئے بھارتی ویزے منسوخ کیے، فضائی حدود بند کی، اور تجارتی روابط معطل کر دیے۔
حالات اس وقت نہایت خطرناک رخ اختیار کر گئے جب 6 اور 7 فروری کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان کے اندر چھ مختلف مقامات پر میزائل حملے کیے، جن میں کوٹلی، بہاولپور، مریدکے، باغ اور مظفر آباد شامل تھے۔ ان حملوں میں 26 افراد شہید اور 46 زخمی ہوئے۔ جواباً پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے جن میں تین رافیل شامل تھے۔ چند دن بعد بھارت نے پاکستانی ایئربیسز پر حملے کیے، جس کے بعد پاکستان نے آپریشن "بنیان مرصوص” شروع کیا اور بھارتی ایئربیسز ادھم پور، پٹھان کوٹ، اور آدم پور کو نشانہ بنایا۔ اس دوران بھارت کا S-400 دفاعی نظام اور براہموس میزائل کے ذخائر بھی تباہ ہوئے۔
جنرل مرزا کا کہنا تھا کہ اس بار کی لڑائی صرف کشمیر تک محدود نہیں رہی بلکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے اندر گہرائی تک فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، جو آئندہ کے کسی بڑے تصادم کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئندہ کوئی بحران آیا تو ممکن ہے عالمی برادری کو مداخلت کا موقع ہی نہ ملے، اور نتیجہ بہت زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت صرف چند فوجی ہاٹ لائنز ہی فعال ہیں، جبکہ بیک چینل رابطے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ سنگاپور میں بھارتی چیف آف ڈیفنس جنرل انیل چوہان سے ان کی کوئی ملاقات طے نہیں ہے۔
دوسری جانب بھارت مسلسل وہی مؤقف دہرا رہا ہے کہ بات چیت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، اس کشیدگی کو کم کرنے میں امریکہ اور دیگر طاقتوں نے خاموش سفارتکاری سے کردار ادا کیا، تاہم بھارت کسی تیسرے فریق کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
اس تمام صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ اگرچہ دونوں ممالک ایک بڑی جنگ سے واپس پلٹ چکے ہیں، مگر امن کی راہ ابھی ہموار نہیں ہوئی۔ جنرل مرزا نے واضح طور پر کہا کہ اگر سنجیدہ اور دیرپا مذاکراتی عمل کا آغاز نہ کیا گیا تو آئندہ بحران نہ صرف کشمیر بلکہ پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسائل میدانِ جنگ سے نہیں بلکہ صرف مذاکرات کی میز پر ہی حل ہو سکتے ہیں۔